کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 330
حدیث اور سنّت کی عظمت تمام فرقوں کا اجماع ہے اور ان کی متفقہ شہادت ہے کہ حق ائمہ سنت میں ہے اسی لئے جو لوگ ائمہ حدیث کے زیادہ موافق ہوں وہ ان فرقوں میں دوسروں کی نسبت زیادہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ خود امام ابو الحسن علی بن اسمٰعیل اشعری چونکہ امام احمد اور دوسرے ائمہ سنت سے زیادہ قریب تھے۔ اس لئے وہ اپنے اتباع میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ قاضی ابو بکر باقلانی کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی عزت ائمہ حدیث کی موافقت کی وجہ سے ہے۔ امام الحرمین ابوالمعالی جوینی 478ھ اور امام غزالی 505ھ اشعری کے بعض اصولوں کی مخالفت کے باوجود ان کی عزت حدیث اور سنّت کی موافقت ہی کی وجہ سے ہے۔ فقہی فروع میں امام شافعی کے اتباع کی وجہ سے ان کو حدیث سے تعلّق ہوا اور علم کلام میں بھی سنت کی موافقت یا مخالفت کے تناسب ہی سے ان کا احترام کیا گیا۔ معیار حق حدیث اور ائمہ حدیث ہی قرار پائے ہیں۔ یہ عجیب ہے کہ وہ فقہ ودرایت سے خالی لیکن حق وباطل کا معیار بھی ٹھہریں۔ (نقض المنطق، ص:16)
تقلید اور جمود کے اثرات:
مروجہ تقلید اور جمود نے صرف ائمہ حدیث ہی کو ایذا نہیں دی بلکہ اپنے مسلک پر جمود کی وجہ سے دوسرے ائمہ کو حق پر سمجھنے کے باوجود وہ ان کے اتباع سے انصاف نہیں فرما سکے۔ آپ اس سلسلہ میں اقتداء بالمخالف ہی کو لے لیجئے۔ یہ مسلمہ ہے کہ ائمہ اربعہ حق پر ہیں[1] یہ چاروں نہریں ایک ہی دریا سے نکلی ہیں۔ یہ پانی ایک ہی منبع سے تقسیم
[1] ۔ یعنی حضرات مقلدین کے ہاں یہ ایک مسلمہ امر ہے، وگرنہ امر واقع اس کی تردید وتکذیب ہی کرتا ہے۔ کیونکہ اصول وفروع میں ان کا بہت اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:((ماالحق الا واحد قولان مختلف یکوفان صوابا جمیعاَ اما الحق والصواب الا واحد )) (جامع بیان العلم:2/81)