کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 33
بےکار ہیں یا ا ن ائمہ کے علوم سے استفادہ شرعاً ناجائز ہے اور ان کے علوم اور اجتہادات پر تنقید زندگی کا کوئی اہم اور ضروری مشغلہ ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے اجتہادات اور جملہ مسائل کی حیثیت ایک علمی تحقیق یا مقدس محنت کی ہے، ان کا مقام علوم نبوت کا مقام نہیں۔ جس طرح ان سے استفادہ اور اُن کے سامنے انقیاد بشرط صحت درست ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں ان پر تنقید بھی درست ہے اور اُن سے صرفِ نظر بھی کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کی راہیں جس طرح ان کے لیے کھلی ہیں، ان کے اتباع اور تلامذہ کو بھی اجازت ہے کہ علم ونظر کی راہنمائی میں کتاب وسنت کی نصوص پر غور کریں اور مصالحِ وقت کے لحاظ سے ا ن پر عمل کریں۔ گو یہ تحقیق ان کی تحقیق سے مختلف بھی ہوجائے، تحقیق ونظر کے لیے علوم اور خلوصِ نیت کے بعدضروری نہیں کہ مصطلح اجتہاد اور اس کے مفروضہ علوم بھی زیرِ نظر ہوں۔ یہ اصطلاح زمانہ نبوت میں اس مفہوم سے موجود نہ تھی اور یہ علوم اجتہاد بھی زمانۂ نبوت سے صدیوں بعد موجود ہوئے۔ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے بھی یہ تمام علوم نہ پڑھے۔ بلکہ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ اس مصنوعی جال سے ہرایک کو شکار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ علم کو علم ہی کی راہ سے منوایا جائے، اسے فتویٰ یا حکومت یا اکثریت کے دباؤ سے نہ منوایا جائے۔ “(ص:103)
جماعت اہلحدیث کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نئی جماعت ہے اور ترک ِ تقلید سے آوارگی راہ پاتی ہے !مصنف کی سماج پر نظر تھی، ان کے کان میں اس طرح کی باتیں پڑتی تھیں۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
”ابتدائی چار سوسال تک تقلید شخصی اور جمود کم تھا، بلکہ پہلی صدی میں آج کی مروجہ تقلید کا رواج ہی نہیں تھا۔ اواخر صدی میں امام ابوحنیفہ اور امام