کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 329
کو دینی اور دنیوی دونوں قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ [1] فقہ حنفیہ کی اشاعت میں ان کے اس تعلق سے بہت مدد ملی۔ اور مذاہب اربعہ کا جہاں بھی زور ہے وہاں دلائل سے زیادہ اسی قسم کے موثرات کا نتیجہ ہے۔ الخطط للمقریزی، مقدمہ ابن خلدون، البدایۃ والنہایۃ وغیرہ کتب تاریخ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ اگر حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی روش کی پابندی فرماتے تو قرین قیاس ہے کہ حنفی مسلک کی اس قدر کثرت نہ ہوتی۔ لوگوں نے حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی اس روش پر تنقید بھی کی ہے۔ کچھ جھوٹی سچی کہانیاں بھی تاریخ الخلفاء سیوطی اور بعض دوسری کتب میں مرقوم ہیں۔ [2] صورت حال کوئی بھی ہو مگر مسلک کی اشاعت میں یقیناً اس سے بڑی مدد ملی۔ اسی طرح افریقہ، حجاز، مصر اور نجد میں حکومتوں نے جس مسالک کی اعانت حکومت کی سطح پر کی ان علاقوں میں ان مسالک کو بڑی ترقی ہوئی اور خوب پھیلے۔ مسلک اہل حدیث کو یہ مواقع کم ملے۔ یہ بے چارے یوں ہی درباروں کی زندگی سے بھاگتے رہے۔ اس لئے تاریخ نے انہیں نسیان وخمول کی دبیز تہوں میں دبا دیا۔ اچھے پڑھے لکھے حلقوں میں اب بھی یہ علی الاعلان کہا جا رہا ہے یہ کوئی مکتب فکر ہی نہیں تھا۔ یہ محض حفاظ حدیث کی جماعت تھی جس میں تفقہ اور درایت ناپید تھی۔ وہ اجتہاد اور استنباط کی راہوں سے نا آشنا تھے۔ حالانکہ تمام مسالک جن کا تعلق سنّت سے ہے یا بدعت سے وہ اپنی اور مسلک کی صحت اور درستگی کے لئے اس مسلک کو معیار اور کسوٹی سمجھتے تھے۔ اور یہ حضرات بھی علم کلام اور فلسفہ سے لے کر فقہ، اصول فقہ، تجوید، نحو، معانی، بیان، ادب اور تاریخ میں مجتہدانہ افکار رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
[1] ۔ بلکہ امام ابویوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے:((من نظر في الراي ولم يل القضاء فقد خسر الدنيا والآخرة)) (تاريخ بغداد:14/249) [2] ۔ دیکھیں:تاريخ الخلفاء(ص:215) اخبار ابي حنيفة للصيمري(ص:92)