کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 328
مصر اور سوڈان کے علاقوں میں اہل علم اور ائمہ سنت کا طوطی بولتا تھا قرآن وسنت اور سلف کا طریق عام تھا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ 198ھ میں مصر تشریف لائے اور اپنے علمی فیوض سے سر زمین مصر کو سیراب فرمایا۔ ربیع سن سلیمان امام اسماعیل ین یحییٰ مزنی، حافظ یوسف بن یحییٰ بویطی وغیرہم کی وجہ سے شافعیت مصر میں عام ہو گئی۔ (الخطط:4/145)
اس کے بعد فاطمیوں کے عروج نے ساری صورت حال کو بدل کر رکھ دیا۔ 358ھ میں مصر پر تشیع اور رفض چھا گیا۔ فاطمی اور دوسرے روافض جو دھاندلیاں کر سکتے تھے کرتے رہے۔ مصر کے در ودیوار پر صحابہ اور ائمہ سلف پر تبرا کے بورڈ آویزاں تھے۔ 564ھ کے پش وپیش سلطان نور الدین محمود بن زنگی کی فوجوں نے اس دور کا خاتمہ کیا۔ فقہائے موالک او رشوافع کے دور کا پھر آغاز ہوااو ررفض وتشیع کا اس سرزمین سے خاتم ہوگیا۔
مقریزی نے خطط جلد چہارم میں اس دو جزء اور عروج وزوال کا مفصل تذکرہ فرمایا۔ مقریزی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے، مذاہب اربعہ میں مناقشات جاری رہے۔ عہدہ قضاء کی وجہ سے اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ اہل علم کی کمزوری تھی کہ مسلمان اور سنی سمجھنے کے باوجود وہ رارات اور باہم خوشدلی سے گذر نہ کر سکے۔ افتاء اور قضاء نے کاروباری انداز اختیار کر لیا۔ وقت کی حکومت بھی ان حضرات کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی اور اپنےسیاسی مفاد حاصل کرتی رہی۔
ابتداءً ائمہ اسلام ان درباروں کی حاضری سے پرہیز کرتے رہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس عباسی اور اموی دونوں درباروں نے عہدہ قضاء کی پیش کش کی۔ امام موصوف مدت العمر اس سے انکار فرماتے رہے اور قریبا دونوں درباروں کے معتوب رہے۔ لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد نےیہ عہدے قبول کر لیے۔ [1]مصالح بدلتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے کوئی نقصان بھی ہوا ہوا۔ مگر بظاہر تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ
[1] ۔ علاوہ ازیں ان کے شاگردوں میں سے پندرہ کے قریب افراد نے عہدۂ قضا قبول کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:اللمحات(4/253)