کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 327
ایک مقدّس تحریک
جومظالم کا تختہ ٔ مشق بنی رہی!
مادی حکومتوں میں جس طرح توڑ پھوڑ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح دینی تحریکات اور فروعی اور اصولی نظریات میں بھی کسر اور انکسار کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ مقدمہ ابن خلدون اور مقریزی کی المواعظ میں ان حوادثات کا تسلسل نظر آتاہے۔ مسائل میں اختلاف اہل علم کی باہم رقابتیں اور شکر رنجیاں؛ تاریخ مذاہب میں مدوجزرکی کیفیت پیدا کررہی ہیں۔ اس کے مادی ذرائع پر بحث تاریخ کا ایک خاص موضوع ہے۔ تاریخ اور طبقات ملل ونحل کی کتابوں میں اس کی خاصی تفصیل ملتی ہے۔
فارس کے علاقوں میں ایران اور ماوراء النہر میں جس طرح مذہبی انقلابات آئے ایک گروہ نے دوسرے پر پورش کی۔ اسے ختم کیا۔ اس قسم کے مواد تاریخ میں عالم میں کافی ملتا ہے۔ ائمہ حدیث اور علمائے سنت کی کثرت، پھر ائمہ شوافع کا زور اس کے بعد علمائے احناف کی یورش پھر تشیع کا غلبہ، یہ سب حوادث تھوڑی سی مدت میں رونما ہوگئے۔
آج بھی ایران اور عراق میں سنی بڑی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن شیعی حکومت کے استبداد نے سب کی زبانیں بند کر رکھی ہیں۔ روسی ترکستان، ازبکستان تاشفند فرقہ پرستی کی تنگ نظری اور فقہی استبداد نے لادینی اور کمیونزم کے لیے راہ ہموار کردی یہاں عملاً اسلام ہی کو خارج البلد کر دیا گیاہے۔ نکتہ ور، دور اندیش طبایع کے لیے اسی میں درس ِعبرت ہے۔
﴿ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ ﴾ (ق:37)