کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 322
دونوں مسلک کی تائید احادیث سے ہوتی ہے، چونکہ تاریخ معلوم نہیں،[1]اس لیے نسخ کا دعویٰ تو صحیح نہیں[2] جو مسلک راجح ہو اس پر عمل ہو سکتا ہے۔ اقتدا کے جواز یا عدم پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ صحیح بخاری، فتح الباری، نیل الاوطار، فتاویٰ ابن تیمیہ میں تفصیل ملے گی۔ [3]
پاؤں پر مسح:
یہ مولانا رضوی کی آخری دلیل ہے کہ اہل حدیث پاؤں پر مسح جائز سمجھتے ہیں۔ فتاویٰ ابراھیمیہ کے حوالہ سے لکھا ہے۔ معلوم نہیں یہ مولوی ابراہیم کون سے بزرگ ہیں اور فتاویٰ ابراہیمیہ کیا بلا ہے۔ ہم صراحتاً یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کا یہ مسلک نہیں اور غالباً شیعوں کے سوا ائمہ سنت سے کسی کا بھی یہ مسلک نہیں۔
آخری گزارش:
ہم "رضوان" اور اس کے ادارہ کے محترم ارکان کو نظر انداز کر رہے تھے۔ خیال نہ تھا کہ ان بزرگوں کو خواہ مخواہ تکلیف دی جائے۔ یہ پہلی دفعہ جوابی گزارشات کی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ بھی اسی غلطی کا اعادہ ہو۔ اس لیے مولانا رضوی اور ان کے
[1] ۔ بِبَعْضِ مَا يُسْتَفَادُ مِنَ الْحَدِيثِ مِنْ غَيْرِ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ كَمَا اسْتَدَلَّ بِهِ عَلَى إِيجَابِ الْوُضُوءِ فِيمَا تَقَدَّمَ (فتح الباری:1/398) نیز دیکھیں:دفاع صحیح بخاری از مولانا ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ (ص:251)
[2] ۔ نسخ کی صراحت بھی صحیح روایا ت سے ثابت ہے، جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(( إنما کان الماء من الماء رخصةً في أول الإسلام، ثم نهي عنها)) (سنن الترمذي، رقم الحديث:110) امام ترمذی اثر ذکرنے کے بعد فرماتے ہیں:((هذا حديث حسن صحيح إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ في الاول اسلام ثم نسخ بعد ذلك، وهكذا روي غير واحد من اصهاب النبي۔ صلي الله عليه وسلم۔ منهم ابي بن كعب، ورافع بن خديج، والعمل علي هذا عند اكثر اهل العلم علي انه اذا جامع الرجل امراته في الفرج وجب عليهما الغسل وان ثم ينزلا))
[3] ۔ صحيح البخاري(1/111) فتح الباري(1/398) نيل الاوطار(/276) شرح العمدة في الفقه لابن تيمية(1/359) مجموع الفتاويٰ(23/39)