کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 321
جماعت ان كےساتھ متفق ہے۔ “
حدیث مسح علی العمامہ حضرت بلال، مغیرہ بن شعبہ، حضرت سلیمان اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ [1]اب آپ سوچ لیں کہ وہابیوں کے ساتھ کون کون بزرگ محروم الاقتداء تصور کرتے ہیں؟ ع
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
مولانا! معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت۔ فداہ ابی و امی۔ سخت قسم کے وہابی تھے!بریلی اور لاہور کے ارباب فکر سوچ لیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ”نماز کا بیڑا غرق“ کا فتوی صادر فرما سکیں تو اپنے بزرگ کی وراثت میں دارالنددہ کی چابیاں آپ حضرات کے حوالے کردی جائیں گی اور حقدار کو حق مل جانے پر ہمیں بھی مسرت ہو گی۔
وجوب غسل:
4۔ زن و شوہر کے تعلقات میں اگر کسی فتور کی وجہ سے مادہ منویہ نکلنے کی نوبت نہ آئے تو جمہور کا مذہب ہے۔ غسل واجب ہے۔ احناف کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام بخاری اور بعض دوسرے ائمہ سلف کا مذہب ہے کہ اس صورت میں غسل واجب نہیں، احتیاط اسی میں ہے کہ غسل کرے۔ [2] (بخاری)
[1] ۔ دیکھیں:تحفة الاحوذي(1/89)
[2] ۔ صحيح البخاري (1/111)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ ((الغَسْلُ أَحْوَطُ، وذَاكَ الآخِرُ، وإِنَّمَا بَيَّنَّا لِاخْتِلاَفِهِمْ)) یعنی غسل کرنا ہی زیادہ محتاط ہے اور یہی آخری امر ہے۔ ہم نے محض اختلاف کی بناپراسے واضح کیا ہے۔ امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری کے اس قول کی شرح میں فرماتے ہیں:
(( وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ مُرَادُ الْبُخَارِيِّ بِقَوْلِهِ الْغُسْلُ أَحْوَطُ أَيْ فِي الدِّينِ وَهُوَ بَابٌ مَشْهُورٌ فِي الْأُصُولِ قَالَ وَهُوَ أَشْبَهُ بِإِمَامَةِ الرَّجُلِ وَعِلْمِهِ))حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ((وهذا عوااظاهر ومن تصرفه فانه لم يترجم بجواز ترك الغسل، وانما ترجم