کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 320
میں ((مَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِهِ))[1]صراحتاً آیا ہے اور ناصبہ سے مراد ان کے ہاں ربع سر ہے۔ شوافع کا خیال ہے کہ سر کی طرف سے کم از کم چند بالوں کا مسح ہو جائے، موالک پورے سر کا مسح ضروری سمجھتے ہیں۔ حدیث شریف میں مسح کی تین صورتیں مروی ہیں: 1۔ پورے سر کا مسح۔ 2۔ سر کے بعض حصے پر اور کچھ پگڑی پر۔ 3۔ پوری پگڑی پر۔ احناف کا معمول احادیث میں بصراحت موجود نہیں صرف مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو مختصر ہے اور صحیح مسلم میں دونوں روایتیں موجود ہیں۔ قرآن کے اطلاق پر صرف موالک کا عمل ہے۔ ایک توضیح احناف نے کی اور پورے سر کے چوتھائی کرائی اور شوافع نے چند بال سے اس کی تفسیر کی، یہ چیز تو گوارا ہیں۔ آپ بھی حق پر، شوافع بھی حق پر اور موالک بھی حق پر، اور اہل حدیث اگر سنت صریحہ کے مطابق پگڑی پر مسح کریں تو معتوب!! اب حدیث سنیے: ((عن عمرو بن أمیة الضمری قال رأیت النبی صلی اللہ علیه وسلم: یمسح علی عمامته وخفیه))[2] (صحيح بخاري مع كرماني، پ:3، ص:53) ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا۔ “ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (( ذھب أحمد بن حنبل إلی جواز الاقتصار علی العمامة، ووافقه علیه جماعة عن السلف)) (مسلم مع نووي : 1/134) ”امام احمد بن حنبل صرف پگڑی پر مسح جائز سمجھتے ہیں اور سلف سے ایک“
[1] ۔ صحيح مسلم رقم الحديث (273)سنن ابي داؤد رقم الحديث(150) [2] ۔ صحيح البخاری(202) سنن ابي داؤد (153)صحيح ابن حبان (4/173)