کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 32
”یہ بھی اپنے وقت کی ایک تحریک ہے، جس کا مقصد: 1۔ اسلام میں اعتقادی اور عملی سادگی کو قائم رکھنا اورافراط وتفریط میں اعتدال کی راہ کا تعین اور اس کی پابندی کرنا۔ 2۔ محبت اور بغض میں عموماً انسان اعتدال کی حدوں کو پھاند جاتا ہے۔ ائمہ حدیث ایسے موقع پر ہمیشہ نقطۂ اعتدال کی تلاش فرماتے اور لوگوں کو اس سے آگاہ فرماتے۔ 3۔ قرآن وسنت اور ان کے متعلقہ علوم کی تدوین واشاعت۔ 4۔ زندگی کے تمام شعبوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام۔ (ص:189) اس مقام پر مصنف نے روافض اور خوارج کا نام لے کر اہلِ بیت کے سلسلے میں اہل سنت کے اعتدال کو سراہا ہے۔ مصنف نے آگے چل کر ان محرکات کی جانب اشارہ کیا ہے، جن کی وجہ سے علوی اور خارجی فرقے وجود میں آئے اور یہ محرکات ختم ہوئے تو مذکورہ فرقے بھی ناپید یا کمزور ہوگئے۔ اہلِ حدیث کا موقف: جماعت اہلحدیث کے متعلق یہ بات سننے میں آتی رہتی ہے کہ یہ لوگ ائمہ کا احترام نہیں کرتے اور فقہ کو نہیں مانتے! بظاہر یہ غیر ذمے داروں کی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن کبھی کبھی معتبر حضرات بلکہ فارغ التحصیل علما یہ دہراتے سنے جاتے ہیں۔ اس بات کی حقیقت الزام کے سوا کچھ نہیں، اسی لیے حنفی علماء میں معتدل اور منصف مزاج اس طرح کی تہمت تراشی سے دور رہتے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں: ”اس تحریک(اہلِ حدیث تحریک) کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ ائمہ کی مساعی