کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 318
قصہ پارینہ نوک قلم پر آگیا ہے، اجازت دیجیے کہ مبحث اور نکھر جائے، تاکہ جناب سنجیدگی سے غور فرما سکیں اور نواب صاحب اور اہل حدیث کی قرار داد جرم بھی منظر عام پر آجائے تاکہ ارباب دانش سوچ سکیں کہ معاملہ کہاں تک سنگین ہے؟ کچھ حقیقت بھی ہے یا صرف ”شیر آیا“ تک ہی ساری داستان ختم ہو جاتی ہے! قاضی خاں (1/11)فرماتے ہیں: ((ذکر الناطفی عن محمد: إذا صلى على جلد كلب أو ذئب قد ذبح جازت صلوته)) ”امام محمد فرماتے ہیں: اگر کتا یا بھیڑیا ذبح کیا جائے تو اس کے چمڑے پر نماز جائز ہے۔ “ ((أما إذا ذبح بالتسمية، وصلى مع لحمه أو جلده قبل الدباغ يجوز)) ”جب کتا وغیرہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا جائے، اس کے گوشت یا اس کے چمڑے پر نماز پڑھی جائے رنگنےسے پہلے، تو یہ جائز ہے۔“[1] معلوم ہے درندے حرام ہیں۔ حرمت کے باوجود یہ بسم اللہ کے ساتھ ذبح کیےجائیں تو ان کا گوشت اپنے پاس رکھ کر ان کے چمڑے پرنماز ہو جائے گی! مولانا ! یہ بالکل وہی چیز ہے جو نواب صاحب فرما رہے ہیں، شراب حرام ہے لیکن پاک۔ یہاں گوشت اور چمڑا دونوں حرام ہیں مگر ذبح سے پاک ہو گئے ہیں۔ فرمائیے! آپ میں اور نواب صاحب میں کیا فرق ہے؟ نواب صاحب بے چارے صرف پاک کہہ رہے ہیں۔ لیکن جناب کے ہاں نبیذ مسکر پی کر کتے کا گوشت جیب میں رکھ کر اور اس کے چمڑے کا مصلیٰ (دباغت سے پہلے) پاؤں کے نیچے بچھا کر نماز پڑھنی جائز ہے، مگر پھر بھی کافر وہابی ہیں۔ انا الله!
[1] ۔ منية المصلي (ص:47)