کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 317
نہیں ہوتا، علماء نے اسے شراب ہی سے تعبیر فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو: طبقات الحنابلہ لابی یعلی (ص:113) امام خلف بن ہشام بن ثعلب (329ھ)فرماتے ہیں: ((أعدت صلوۃ أربعین سنۃ کنت أتناول فیہا الشراب علی مذہب الکوفیین۔ 1 ھ)) ”میں نے چالیس سال کی نماز کا اعادہ کیا، کیونکہ میں اصحاب کوفہ کے مسلک کے مطابق شراب پیتا رہا۔ “ جمہور صحابہ اور تابعین کا مسلک یہ ہے کہ ہرمست کرنے والی چیز، تھوڑی ہو یا زیادہ حرام ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت اس کی مؤید ہے۔ امام محمد اور مشائخ سے ایک گروہ نے بھی یہی مسلک پسند فرمایا ہے۔ امام شعبی، نخعی اور امام ابو حنیفہ سے ایک دوسرے مسلک بھی منقول ہے کہ انگور کے سوا گیہوں کی شراب درست ہے، بشرطیکہ حد سکر کو نہ پہنچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ))[1] نیز فرمایا: ((ما أسكر كثيره فقليله حرام‏))[2] ”جو مست کرے وہ خمر ہے۔ مسکر چیز کم ہو یا زیادہ حرام ہے۔ “ اس لیے پہلا مسلک صحیح اور دوسرا مسلک اجتہادی غلطی پر مبنی ہے۔ جب احناف میں شراب کے متعلق اتنا نرم رویہ اختیار فرمایا گیا ہے تو نواب صاحب اور بے چارے اہل حدیثوں پر صرف پاک اور حرام کہنے پر کیوں خفگی فرمائی جا رہی ہے؟
[1] ۔ صحيح مسلم، رقم الحديث(2003) [2] ۔۔ صحيح سنن ابي داؤد رقم الحديث (3681)سنن الترمذي، رقم الحديث(1865)سنن النسائي رقم الحديث، (5607) سنن ابن ماجه رقم الحديث (3393)