کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 311
پاک اور پلید کا مسئلہ حلال و حرام کے قریب قریب آیا، اس میں محض آثار صحابہ کفایت کر سکتے ہیں اور ان کی بنا پر حرمت اقتدا کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔ آیا یہ ممکن ہے کہ ان اہم مسائل کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی مروی نہ ہو؟ سارا معاملہ صحابہ پر چھوڑدیا جائے جو حسب عقیدہ اہل سنت معصوم نہیں ہیں؟اور پھر آپ ہیں کہ بے سوچے سمجھے فتویٰ دینا شروع کر دیتے ہیں! ع ((ما هكذا يا سعد تورد الإبل))[1] پھر ان آثار کی اسانید پر بھی کبھی آپ نے غور فرمایا؟ شاید ہی ان میں کوئی سند صحیح طور پر صاحب روایت تک پہنچ سکے۔ بشرط صحت ان آثار کا مفاد زیادہ سے زیادہ تنزیہ ہو سکتا ہے، ان کی بنا پر کوئی تشریعی حکم نہیں ددیا جا سکتا، لیکن آپ کے ہاں اکفارو تکفیر اور اقتدا پر پابندیاں ایک دل لگی ہے اور دل خوش کن مشغلہ ؎ ((والکفر عندکم رخیص سعره حصوا بلا کیل ولا میزان))[2] میری گزارش اس قدر ہے کہ یہ فتویٰ بازی ان دلائل کی بنا پر دیانتاً بھی مناسب نہیں اور آپ کی پارٹی علمی طور پر بھی اس کی اہل نہیں کہ ایسے اہم اور ذمے دارمسائل میں جسارت کر سکے۔ آپ حضرات کے لیے اَعراس، موالید، اسقاط، ختم، ساتواں، چالیسواں، جمعرات جیسے مفید مشاغل کیا کم ہیں؟ آپ خواہ مخواہ ایک علمی ذمے داری کے لیے میدان میں تشریف لے آتے ہیں!! 9۔ کنوئیں کی پاکیزگی، ڈولوں کی مقدار اور تعداد میں جو تفادت رکھا گیا ہے، وہ بھی محض آثارہی ہیں۔ کتاب اللہ یا سنت صحیحہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ایک کنوئیں میں چڑیا چوہا یا ممولا وغیرہ گر جائیں تو اپ کے ہاں بیس ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہوگا، خاموشی سے تقلیداً مان لینا تو اور بات ہے، ذرا سوچئے!
[1] ۔ اے سعد! اس طرح تو اونٹوں کو ہانکا نہیں جاتا! [2] ۔ تمھارے ہاں کفر انتہائی رخیص ہے، بغیر ماپے اور تولے اسے پھینکو۔