کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 310
حضرات تو سارے ہی تقریباً کم ظرف ہیں۔ دیوبندی حضرات میں اس قسم کی کم ظرفی مولانا تھانوی اور مولانا انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے حصے میں آئی تھی۔ مولانا عبدالحی لکھنوی کا مسلک اس باب میں زیادہ صاف اور واضح ہے۔ رحمة الله و رضي الله عنه۔ غالباً آپ حضرات اس کی تو اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ اگر کوئی شخص امام ابو یوسف یا امام محمد کے مسلک کی پابندی کرے تو اس کی نماز ہو جائے گی اور اقتدا بھی درست ہی ہو گی۔ اسی طرح امام شافعی، امام مالک یا امام احمد بھی طہارت میں اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کریں یا امامت فرمائیں تو ان کی نمازوں کو بھی آپ آسمان تک پہنچانے کی فرشتوں کو اجازت دیں گے۔ اگر آپ اتنی لچک پیدا کریں تو وہابیوں کی فکر مت کریں، وہ آپ کے ان وسائل سے بے نیاز ہیں، ان کا معاملہ براہ راست خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہو گا اور ان کا امام شفاعت کے وقت ان کو ان شاء اللہ نہیں بھولے گا۔ ((اللهم صل على محمد وبارك وسلم)) 8۔ طہارت کے مسئلے میں کنوئیں اور تالاب کا فرق بھی عجیب ہے۔ گویا یہاں پہنچ کر پانی کی مقدار سے ظرف کی ہئیت کو پاکیزگی اور نجاست میں زیادہ دخل ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک کنویں میں اتنا پانی ہے جس سے کئی تالاب دہ در دہ بھر سکتے ہیں، لیکن جب یہ پانی تالاب میں ہو تو کوئی پلیدی اس میں اثر نہیں کر سکتی، لیکن یہ تمام اور اس سے کئی زیادہ پانی کسی گہرے اور وسیع کنوئیں میں آجائے تو وہ چند تو لے نجاست کا بھی متحمل نہ ہوگا، گویا گول برتن چوکوریا مستطیل برتن سے جلدی پلید ہو سکتا ہے۔ صاحب ہدایہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((ومسائل البئر مبنية على اتباع الآثار دون القياس)) (هداية اولين، ص:20) ”کنوئیں کی نجاست میں قیاس کو دخل نہیں، یہ مسائل سماعی ہیں۔ “