کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 309
ہے بھی یا نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ احناف کا مسلک پانی کے متعلق نہ روایتاً درست ہے نہ درایتاً، نہ نصوص اس کی مؤید ہیں نہ عقل۔ یہ مسلک محض عوام کی عقیدت مندانہ حمایت سے چل رہا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ آپ حضرات کو اپنے مخالفین پر فتویٰ دینے کی جرأت کیسے ہوتی ہے؟ مائے کثیر کی تعیین عشر فی العشر یعنی دہ در دہ کا اندازہ بالکل بے ثبوت ہے۔ متاخرین حنفیہ نے یہ اندازہ گھڑلیا ہے، قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ شارح وقایہ نے اسے ثابت کرنے میں جس قدر زور صرف کیا ہے، اس کا اصل مطلب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر جناب نے اسے ثابت کرنے کی کوشش فرمائی تو تفصیلاً عرض کیا جائے گا۔ محی السنہ کا قول پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ صاحب درالمختار (ص:16) بھی امام محی النسۃ سے اس باب میں متفق ہیں کہ یہ تحدید ثابت نہیں، بلکہ امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ سے بھی یہ بات ثابت نہیں۔ مائے کثیر، مائے جاری، غدیر وغیرہ کے متعلق ائمہ احناف میں کس قدر اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا: جاری پانی وہ ہے جو تنکوں کو بہا کر لے جائے۔ بعض نے فرمایا جس میں تکرار نہ ہو۔ اسی طرح غدیر(تالاب)کے متعلق ارشاد ہے، جس کو ایک طرف سے اگر حرکت دی جائے تو دوسرے طرف سے نہ ہلے، لیکن حرکت غسل سے ہو یا ہاتھ سے یاوضو سے؟ اس میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف سے مختلف روایات ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ مسئلہ منصوص نہیں، بلکہ اجتہاد وتفقہ کی پیدا وار ہے۔ اسی طرح دہ در دہ کا مسئلہ بھی متاخرین نے پیدا کر دیا۔ مولوی رضوی خود ہی سوچیں کہ اس قسم کے فقہی اختلافات کی بنا پر اقتدا سے روکنے کا فتویٰ دانشمندای نہیں، بلکہ جس طرح ائمہ نے ان مسائل میں اختلاف کا حق دیا ہے اور شریعت میں اپنے اجتہادات کو ٹھونسنے کی کوشش نہیں فرمائی، اب بھی تنگی نہ فرمائی جائے، بلکہ اپنے مسلک اور تحقیق کی پابندی کے بعد دوسرے فقہی اختلافات میں رواداری برتی جائے۔ بریلوی