کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 308
”قلیل اور کثیر پانی کی مقدار میں لوگوں کے بہت اقوال ہیں، جن کی کوئی دلیل نہیں۔ “
جب ان تحدیدات کی تائید کتاب و سنت کی کسی نص صریح سے نہیں ہوتی تو پھر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ آپ سوچیں نجس پانی کا استعمال حرام ہو گا۔ پانی کو پلید ثابت کرنے کے لیے آپ کو ایسے دلائل کی ضرورت ہوگی جو حرمت و حلت کے اثبات میں کامیاب ہو سکیں۔ ایسے ادلہ جو ائمہ اجتہاد میں محل اختلاف ہیں، ان کے مفہوم میں اختلاف طریق ثبوت میں اختلاف، تعیین مقاصد میں اختلاف، ان مظنون فرقہ وارانہ دلائل کی بنا پر آپ حرمت اقتدا کا فتویٰ کس جرأت سے دے رہے ہیں؟یہ نہ علم کی شان ہے نہ دیانت کا تقاضا، اس کی غایت صرف اسی قدر ہو سکتی ہے کہ جس پانی کو آپ پلید سمجھتے ہیں، اسے مت استعمال فرمائیے۔ پوری احتیاط سے اپنے مسلک کی پابندی فرمائیے، لیکن نہ آپ کسی دوسرے کو مجبور فرما سکتے ہیں نہ اس پر کوئی فتویٰ لگا سکتے ہیں۔
شوافع، موالک اور حنابلہ کا مقام اپنے ائمہ کے ساتھ احناف سے کم نہیں۔ عقیدہ طریق فکر، مسلک کے متعلق یقین بالکل مساوی ہے۔ اگر وہ بھی یہی روش اختیار کریں جو آپ نے اختیار فرمائی ہے تو ملت میں تفریق کی ایسی راہ کھلے گی کہ غیر مقلد آپ کا مضحکہ اڑائیں گے، عقل و دانش کی محفلوں میں آپ کے لیے کوئی مقام نہ ہو گا۔ پہلے ہی سے آپ کا فرقہ تنگی نظر اور فقدان نظر میں ضرب المثل ہے۔ پابندی رسوم، حلوے اور چائے کی تلاش میں کافی بدنام ہے، مزید تفریق بین المومنین کی ذمے داری لینے سے پر ہیز فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو فہم صحیح کی توفیق دے!
7۔ مناسب ہو گا کہ آپ کے مسلک کی بھی چھان پھٹک کر لی جائے۔ دوسرے پر حملہ کرنے سے پہلے آپ کے شیش محل کا امتحان ہو جائے کہ وہ کہاں تک مضبوط ہے جس کے سہارے پر دوسروں کی اقتدا حرام فرمائی جا رہی ہے؟ وہ سہارا سہارا