کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 307
سلف، فلا ينجس الماء بما لا قاه ولو كان قليلا إلا إذا تغيرو قد ذهب إلى ذلك ابن عباس و أبوهريرة والحسن البصري وابن المسيب وعكرمة وابن ابي ليلى والثوري واداؤد الظاهري والنخعي و جابربن زيد و مالك والغزالي )) (نيل الاوطار:1/106)
”حدیث سے ظاہر ہے کہ پانی کم ہو یا زیادہ، کسی چیز کے گرنے سے پلید نہیں ہوتا، گو اس کے اوصاف بھی بدل جائیں، لیکن اجماع سے ثابت ہے کہ تمام یا بعض صفات کے بدلنے سے پانی پلید ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں کوئی پلید چیز گرے۔ پس یہ استدلال اجماع سے ہے، حدیث کی زیادت سے نہیں۔ پس پانی پلید نہیں ہو گا، جب تک اس کے یہ تین اوصاف نہ بدل جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ، حسن بصری، ابن مسیب، عکرمہ، ابن ابی لیلیٰ، امام سفیان ثوری، داؤد ظاہری، امام نخعی، جابر بن زید، امام مالک اور امام غزالی کا بھی یہی مذہب ہے۔ “
محترم رضوی صاحب کو اگر فاتحہ، میلاد شریف یا عرس اور دیگر اسباب شکم پروری سے کبھی فرصت ملے تو غور فرمائیں! حدیث صحیح، اجماع امت اور ائمہ سنت کی ایک بڑی تعداد نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور وہابیوں کے ساتھ ہے۔ فرمائیے! ان بزرگوں کی اقتدا بھی درست ہے یا نہیں؟
6۔ محترم رضوی صاحب! اجتہادی مسائل میں کسی کے مسلک کا اختیار کرنا یا ترجیح دوسری چیز ہے اور مخالف مسلک کی تکفیر یا اقتدا کا عدم جواز بالکل دوسری چیز ہے۔ یقیناً تھوڑے پانی کی نجاست کے بھی بہت سے ائمہ قائل ہیں۔ پھر مائے قلیل کی تحدید میں بھی بہت زیادہ اختلاف ہے، جس میں فیصلہ کرنا تقلید کی بنا پر تو شاید ممکن ہو جائے، مگر دلیل کی بنا پر سخت مشکل ہے۔
((وللناس فی تقدیر القلیل والکثیر أقوال لیس علیہا أثارۃ من العلم)) (نيل الاوطار:1/37)