کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 305
اس کی اسناد میں جو بحث ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں۔ احناف نے اس حدیث کے متعلق جو معنوی الجھن پیدا کی ہے وہ بھی معلوم ہے، پھر بھی مولانا عبدالحی مرحوم اسے صحیح فرماتے ہیں۔ اس لیے میں انتظار کروں گا کہ اس اضطراب کو آپ ہی دور کریں!
امام شوکانی اورسید صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان واقعی حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی طرف ہے۔ وہ پانی کی مقدار کو نجاست اور طہارت میں اہمیت نہیں دیتے، بلکہ وہ اس کا انحصار کیفیت ہی پر فرماتے ہیں۔ پانی کم ہو یا زیادہ، رنگ، بو، مزہ بدل جائے تو اسے پلید سمجھتے ہیں، ورنہ ان کی نظر میں وہ پانی پاک ہے اور ان کی دلیل نص حدیث ہے:
((الماء طهور لا ينجسه شيء إلا ما غلب على طعمه أو ريحه أو لونه))[1]
اِلا کے بعد جو زیادت ہے باتفاق محدثین ضعیف ہے، لیکن اس کی تائید اجماع ائمہ سے ہے۔ [2]
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور نواب صدیق حسن خاں کی تائید میں نص صریح صحیح بھی اور اجماع بھی ہے۔ پانی کی طہارت صریح اور صحیح نص سے ثابت ہے اور زیادت کی تائید اجماع سے۔ رضائی حضرات شاید نہ جانتے ہوں؟!
4۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، حدیث ((الماء طهور لا ينجسه شيء)) [3] بروایت
[1] ۔ ضعيف سنن ابن ماجه (521)سنن الدراقطني(1/11)سنن البيهقي(1/295)اس حدیث کی سند میں ”رشدین بن سعد“راوی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: التلخيص الجير(1/15)السلسة الضعيفة(2644)البتہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو زکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ”والحديث غير قوي الا انالا تعلم في نجاسة الماء اذا تغير بالنجاسة خلا فاء والله اعلم “
[2] ۔ دیکھیں:الا جماع للامام ابن المنذر رحمة الله (ص:33)
[3] ۔ النسائي، رقم الحديث(326) مسند احمد (3/31)