کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 302
((لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ صَاحِبِ بِدْعَةٍ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا)) [1] ”یعنی بدعتی کے فرض اور نفل دونوں اللہ تعالیٰ منظور نہیں فرماتا۔ “ آپ ہی فرمائیے!ایک غیر مقبول نماز کی امامت سے ہمیں کیا حاصل ہے؟ اس لیے آپ اگر اہل توحید کی اقتدا نہیں فرماتے تو اطمینان رکھیے، یہاں سے بھی کوئی پیغام کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ ع۔ پیش آں کس برو کہ خریدار تست[2] دلائل: البتہ ان دلائل کے متعلق گزارش کرنا، جن سے عوام کو مغالطہ ہو سکتا ہے، ہمارا فرض ہے۔ محترم رضوانی صاحب نے اہلحدیث کی اقتدا کے ناجائزہونے میں پانچ مسائل کا تذکرہ کیا ہے: 1۔ حضرت مجدد، الوقت مجتہد العصر مولانا الشیخ سید نواب صدیق حسن خاں صاحب کی کتاب ”الروضه الندية“کے کسی اُردو ترجمہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ”پانی کتنا ہی کم ہو، نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہو تا، جب تک رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے۔ “ فتویٰ سنیے: ”سوچیے! یہ لوگ ایک لوٹے پانی میں ایک قطرہ پیشاب گرجائے تو اس کو پاک کہتے ہیں اور اس سے وضو کر کے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ بتائیے!ہماری نماز ایسے پانی سے وضو کے ساتھ ہو سکتی ہے!“ اب ہماری گزارشات سنیے:
[1] ۔ موضوع : سنن ابن ماجه، رقم الحديث(49)اس کی سند میں”محمد بن محصن العكاشي“راوی کذاب اور مہتم ہے۔ [2] ۔ اس کے سامنے پیش کرو جو تمھارا خریدار ہے۔