کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 300
بے طمع آدمی سے ان کا تعلق کہاں تک قائم رہ سکتا ہے؟ کہاں جیل کی صبر آزما موت، کہاں قوالیوں کے طواف ؟ لیکن چونکہ اہل حق پر طعن کے لیے فقہ حنفی کی آڑ لی گئی ہے اور فقہی فروع کو بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، اس لیے ارباب توحید ہمیں اس طریق گفتگو میں معذور تصور فرمائیں۔ مقصود اسی طریق فکر کی وضاحت ہے جسے اہلحدیث اور دوسرے ائمہ سلف نے ترجیح دی ہے، لیکن ادارہ ”رضوان“نے اسے مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی ہے، کسی پر طعن مقصود ہے نہ تنقیض ؎ گفتگوئے عاشقاں در باب رب جذبہ عشق است نے ترک ادب[1] وہابی: مدیر”رضوان“نے اہل حدیث اور اہل حق کے لیے وہابی کا لقب اختیار کیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس سب و شتم کا پورا دھارا خود بخود ہی کسی اور طرف پھر گیا ہے اور اہل حق اس بہودہ گوئی سے محفوظ ہو گئے۔ ((کما قال علیہ السلام والصلاة: كيف يصرف الله عني شتم قريش يسبون مذمماً وأنا محمد)) [2] فی الجملہ نسبتے تو کافی بود مرا بلبل ہمیں کہ قافیہ بود و بس است[3] یہاں بحمد اللہ نہ کوئی وہابی ہے نہ نجدی، نہ حنفی ہے نہ سہروردی۔ ان وقتی اور اختراعی نسبتوں سے نہ محبت ہے نہ نفرت، نہ کسی سے عشق ہے نہ بغض، حقیقت اسی قدر ہے کہ کتاب اللہ اور سنت سے وابستگی ہے۔ وہ بھی اس انداز سے کہ اس کے رد و قبول میں کسی غیر نبی کو کوئی معیاری اہلیت حاصل نہیں ہے۔ کوئی طریق فکر ذہن پر محیط نہیں،
[1] ۔ خدا کے بارے میں عاشقوں کی گفتگو جذبہ عشق سے ہے نہ کہ ترک ادب سے۔ [2] ۔ صحيح البخاري رقم الحديث (3533)مسند احمد (2/340) [3] ۔ بالجملہ تمھاری میرے ساتھ اتنی نسبت ہی کافی ہے کہ قافیے کے تحت بلبل آگیا اور بس۔