کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 30
سمجھنے کی راہ میں جو دشواری پیش آئی ہے یا جس کا گمان کیا گیا ہے، وہ دور ہوجائے گی اور اُمت کے مختلف طبقات وفرق ایک دوسرے سے قریب ہو ں گے۔ مولانا لکھتے ہیں:
”شروع شروع میں لفظ”اہلحدیث“ کا مقصد یہ تھا کہ اجتہادی اُمور میں تقلید اور جمود کو دین میں پنپنے کا موقع نہ دیا جائے، بلکہ صحابہ اور ائمہ اسلام کے اجتہاد سے وقت کے مصالح کے مطابق فائدہ اٹھایا جائے او رفقہی فروع میں جمود اور فرقہ پروری کی حوصلہ افزائی نہ ہونے پائے۔ اصل نظر کتاب اللہ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مرکوز رہے۔ کتاب وسنت میں اگر کسی مسئلے یا وقتی حادثے کے متعلق صراحت موجود نہ ہوتو اس کا فیصلہ محض کسی شخصی رائے کےمطابق نہ ہو، یا کسی علاقے کے علماء اپنے مخصوص افکار اُمت پر نہ ٹھونس دیں، بلکہ اصل مطمح نظر صحابہ اور اسلافِ کرام کی وسعت ِ نظر ہو، جمود اور شخصیت پروری سے اُمت میں ضیق نہ پیدا کیا جائے۔
”جب نصوص نہ ہوں، کتاب وسنت میں احکام صراحتاً نہ ملیں تو رائے یا اجتہاد کے سوا چارہ نہیں۔ صحابہ نے بھی اجتہاد فرمایا، ائمہ اربعہ اور دوسرے ائمہ مجتہدین نے بھی بوقتِ ضرورت اجتہاد فرمایا۔ وقت کے ضروری مسائل کو اجتہاد ہی سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اہلحدیث اور فقہائے مذاہب سب ہی نے اجتہاد کیا اور قیاس شرعی یا میزانی کے ذریعے وقت کے مسائل میں مخلصی کی راہ پیدا فرمائی۔ “(ص:86)
جماعت کا اہم اور اولین مقصد:
مصنف نے مغلیہ عہد کے اکثر حصوں کی خرابیوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح عام زندگی احکامِ شریعت سے دور اور شرک وبدعت کے اعمال سے مانوس تھی۔ اکبر کے دور میں تو حال زیادہ خراب تھا۔ دین سے دوری کے ساتھ ساتھ اعتقادی فتنے