کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 299
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
”رضوان“لاہورمؤرخہ28 مارچ1951ءکے”نماز نمبر“میں بعض اختلافی مسائل کا تذکرہ مزاحیہ انداز میں ”گل وخار“کے عنوان سے کیا گیا۔ سنجیدہ مزاح بُری چیز نہیں، لیکن دینی مسائل میں یہ طریق کیوں اختیار کیا گیا ہے؟
”رضوان“رضا خانی احناف کا ترجمان ہے۔ یہ حضرات فہم مسائل میں فقہ حنفی سے کہیں زیادہ اعتماد مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے طریق فکر پر رکھتے ہیں۔ فقہ حنفی کے ساتھ ان کا تعلق محض عوام کے ساتھ رابطے کی بنا پرہے، ورنہ حضرت امام والا مقام کے علم وتفقہ سے انھیں چنداں دلچسپی نہیں۔ جہاں اجتہاد کی طغیانی کا یہ عالم ہو کہ عقائد کے اثبات میں قیاس سے کام لیا جاتا ہو، بلکہ نصوص قطعیہ کو نظر انداز کرنے میں بھی پرہیز نہ ہو، وہاں حضرت امام کے طریق فکر کی کیا وقعت ہے؟ جہاں اثبات عقائد میں ظنیات سے لبریز اور اخبار آحاد جیسی واجب التعمیل نصوص میں بھی احتیاط کا دامن چھوٹنےنہ پایا ہے۔ ((رحمه الله ورضي الله عنه وعن سائر الأئمة المجتهدين والفقهاء والمحدثين الذين هم قادة الدين))وہاں مقاییس اور اوہام کی اس بے اعتدالی اور طغیانی کا پیوند کیونکر لگ سکتا ہے۔ ؟
اکل حلال میں جہاں اس قدر پابندی ہو کہ مقروض کی دیوار کے سائے سے استفادہ کرنے میں احتیاط پیش نظر رہی ہو، وہاں اس حنفیت کا جوڑ کیونکر لگے گا جس سے جمعرات کی صبح ہی سے مسجد کے درودیوار پر ٹکٹکی بند ھ جائے کہ حلال و حرام سے پیٹ کا دوزخ بھر لیا جائے۔ جہاں بھینس اور اس کی کٹیا کی بیماری پر عُرس و میلاد کی نذریں ماننے کی تلقین ہوتی ہو، پیٹ کی پہنائی شب ہجر سے میلوں دراز ہو، امام ابو حنیفہ جیسے