کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 292
ضروری ہے۔ اگر مولانا کا یہ ارشاد درست ہے کہ فقہاء نے فقہی مسائل اور نئے اجتہادیات کا پوری دیانت داری سے فائزہ لیا تو یقیناً آئمہ حدیث اور فقہاء محدثین نے بھی فقہ الحدیث کا استنباط پوری دیانت داری سے کیا ہے۔ لہٰذا ان سے متعلق بھی زبان درازی معیوب ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے مفقود الخبر کے باب میں حدیث لقطہ کا ذکر فرمایا [1]جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ضرورت داعی اور حالات کا تقاضا ہو تو ایک سال کے بعد بھی اسے عدت موت کی اجازت دی جا سکتی ہے اگر ایسا عمل میں آجائے تو اُمید ہے محترم مولانا اور مدیر فاران اس پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔ مضمون کے آغاز میں آخر میں مولانا نے جس صلح پسندانہ اور مخلصانہ جذبات کا اظہار فرمایا ہم اس کے لئے ان کے شکر گزار ہیں۔ اسی طرح مدیر فاران کی اصلاح کوشی کو بھی ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن گزارش ہے کہ ان خیالات کا تذکرہ دروس، مجالسِ وعظ، جمعہ کے خطبات اور عمومی خطبات میں ہونا چاہئے۔ تاکہ عوامی ذہن صاف ہو اور ان اختلافات کو محض دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر کوئی آدمی دیانتاً دوسرے کے خیالات سے متاثر ہو کر انہیں قبول کر لے تو اسے نہ مستحق تعزیر سمجھا جائے نہ اس سے نفرت کی جائے۔ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے اب تک عصبیت آپ حضرات ہی کی طرف سے آئی ہے۔ مسلکی تعصب کی ایک مثال ایک مثال ملاحظہ فرمائیے: ((وقف على أصحاب الحديث، لا يدخل فيه الشافعي إذا لم يكن في طلب الحديث، ويدخل الحنفي كان في طلبه أو لا)) اھ (الدر مختار، ص: 665، طبع مصر) یعنی اگر کسی شخص نے اصحاب الحدیث کے لیے کوئی چیز وقف کی ہوتو شافعی اگر حدیث کا طالب علم نہ ہوتو اس وقف میں شامل نہیں ہوگا اور حنفی اس وقف میں
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث(4986)