کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 289
زبان سے نیت
جہاں تک خیال ہے اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ نیت دل کا فعل ہے اس کا زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اس پر متفق ہیں۔ جس التزام سے یہ فعل کیا جاتا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوام کو اس غلطی پر متنبہ کیا جائے۔ یہ عجیب ہے کہ جناب جہلاء کے فعل اور عمل کی خواہ مخواہ ذمہ داری اٹھاتے بلکہ وکالت فرماتے ہیں۔ رہا انسانی دھندوں کا معاملہ سو زبانی نیت اور جہر بالقراءۃ وغیرہ میں بھی اس سے مخلصی نہیں ہوتی۔ اس کے لئے آپ ایک بدعت کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس سے پرہیز فرمائیے اور عوام کو ترغیب دیجئے وہ سنت پر عمل کریں۔ زبان کے لحاظ سے نیت کا تعلق جوارح سے نہیں۔
((خصت النية في غالب الاستعمال بعزم القلب على أمر من الأمور)) (مصباح المنير :2/703)
نیت کا لفظ عموماً دل کے عزم پر بولانا جاتا ہے:
((نَوَيْتُ نِيَّةً ونَواةً أَي عزمت) ( (تہذیب الصحاح:2/603)
اوپر کے علمی حلقوں سے عوام کی وکالت پر تعجب ہو رہا ہے۔ اس قسم کی وکالت عموماً بریلوی حضرات فرمایا کرتے تھے۔ آپ حضرات اسی سطح پر آگئے۔
((حافظوا على نياتكم [1])) میں ((إنما الأعمال بالنيات))[2]سے کوئی خاص زیادت نہیں۔ نیت بہرحال عمل کیلئے ضروری ہے۔ اس وقت بھی عوام اسے نماز کے واجبات سے سمجھتے ہیں۔ ابن قیم کی نیابت آج بھی ضروری ہے۔ [3]
قربانی نماز سے پہلے:
حضرت العلام نے یہ مسئلہ اس انداز سے لکھا ہے گویا حضرت مولانا معترضین کے
[1] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی(9/151) یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک موقوف اثر ہے۔
[2] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث(1) صحیح مسلم(1907)
[3] ۔ دیکھیں:زاد المعاد(1/194)