کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 288
آخری دو رکعتیں:
حضرات مولانا انصاف پسندی کے دعویٰ کے باوجود بعض مقامات پر عریاں ہو گئے ہیں۔ طبیعت پر ضبط نہیں فرما سکے۔ مولانا نے یہ تو قبول فرمالیا ہے کہ آخری دو رکعتوں میں خاموش رہنا حدیث سےتو ثابت نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی صریح حدیث نہیں۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ((فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ)) سے استنباط فرمایا۔ حضرت امام کے استنباط کی وضاحت مولانا نے مناسب نہیں سمجھی۔ اس لئے اس کے متعلق گزارش کرنا مشکل ہے۔ البتہ احادیث میں صراحت موجود ہے کہ فاتحہ سب رکعات میں ضروری ہے۔ امام بیہقی نے جزء القراءۃ میں مسیء الصلوۃ کی حدیث کو کئی طریق سے روایت فرمایا ہے۔ اس میں فاتحہ کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں صراحت فرمائی ہے:
((كذلك افْعَلْ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا) ( [1] (ص: 12)
”پوری نماز اسی طرح ادا کر“(یعنی مع سورہ فاتحہ)
آپ نے ترمذی (1/44) سے جو اثر حضرت جابر کا نقل فرمایا ہے اس میں بھی یہ الفاظ مرقوم ہیں:
((يقول: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ إِلَّا وَرَاءَ الإِمَامِ))[2]
”جو شخص ايك ركعت بھی ام القرآن کے بغیر پڑھے تو اس کی رکعت نہیں ہوگی مگر امام کے پیچھے“
اس میں رکعت کی صراحت سے ظاہر ہے کہ قراءت ہر رکعت میں ہے۔ آپ کو اپنے حلقوں میں اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ امام شافعی کا حکم نصوص پر مبنی ہے۔ واقعی کوئی رکعت قراءۃ سے خالی نہیں ہونی چاہئے۔
[1] ۔ نیز دیکھیں، سنن ابی داؤد، رقم الحدیث(859)
[2] ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث(33)