کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 287
کہتے۔ البتہ آپ نے جس حدیث سے استدلال فرمایا ہے وہ مجمل ہے اور ابو حمید کی روایات مفصّل اور واضح ہیں۔ والمفصل يقضي على على المجمل
قراءت فاتحۃ خلف الامام:
یقیناً اہل حدیث کے نزدیک راجح یہی ہے کہ سورۂ فاتحہ امام مقتدی سب پر فرض ہے۔ اس مسئلہ میں دیرینہ اختلاف ہے اس لئے فقہائے عراق نے اس پر کافی طبع آزمائی فرمائی ہے۔ لیکن یہ سارے مباحث سلبی قسم کے الزامات ہیں۔ ایجابی طور پر جو احادیث محل نزاع ہیں صریح ہیں، وہ صحیح نہیں۔ جو صحیح ہیں وہ صریح نہیں۔ یعنی مطلق قراءت کے متعلق ہیں، ان میں فاتحہ کا ذکر نہیں۔ محترم مغفور سید انور شاہ صاحب نے ان سلبی اور الزامی آراء کی کافی نشان دہی فرمائی ہے، لیکن اصل موضوع ہنوز تشنہ ہے۔ واقعی امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے متعلق سب سے پختہ دلیل علمائے عراق کی تقلید ہے۔
آپ خود غورفرمائیں! آپ نے حضرت جابر کا اثر ذکر فرمایا۔ [1] آپ کو کوئی مرفوع روایت نہیں ملی۔ امام طحاوی وغیرہ نے اس کا رفعاً ذکر فرمایا ہے لیکن کوئی طریق صحیح نہیں۔ [2] غیظ وغضب کی کوئی بات نہیں۔ اظہار واقعہ کو آپ غیظ وغضب سمجھتے ہیں۔ آپ مختار ہیں۔ اہل حدیث نے آپ کو بعض کمزور مقامات کی طرف توجہ دلائی ہے رد یا قبول آپ کے اختیار میں ہے۔ غیظ وغضب کا کسی کو حق نہیں۔ ویسے اس مسئلہ میں رفع الیدین سے آپ کی پوزیشن کسی قدر اچھی ہے۔ اس موضوع پر طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے اس لئے طول اور تفصیل کی ضرورت نہیں۔
[1] ۔ دیکھیں:سنن الترمذی، رقم الحدیث(313)
[2] ۔ شرح معانی الآثار(1/218) من طريق بحر بن نصر قال: حدثنا يحيٰ بن سلام قال:ثنا مالك عن وهب بن كيسان عن جابر بن عبدالله عن النبي صلي الله عليه وسلم۔ امام بیہقی رحمہ الله حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو موقوفاً ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:هذا هو الصحيح عن جابر من قوله غير مرفوع، وقد رفعه يحيٰ بن سلام وغيره من الضعفاء عن مالك، وذاك مما لا بحل روايته علي طريق الاحتجاج به(سنن البيهقي:2/160) بعد ازيں بیہقی رحمہ الله نے حضرت جابر رضی الله عنہ سے سے سری نمازوں میں قراءت فاتحہ خلاف الامام کا اثر نقل فرمایا ہے۔ نیز دیکھیں:توضیح الکلام(2/714)