کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 284
آٹھ روایات کہاں ہیں، جن کا جناب نے ذکر فرمایا۔ آپ رفع الیدین نہ کریں، آپ کو اختیار ہے۔ ہم بھی اسے فرض نہیں سمجھتے۔ لیکن اگر آپ یہ فرمائیں کہ یہ ترک کسی مستند حدیث سے ثابت ہے تو علم و روایت پر ظلم ہوگا، یا یہ فرمائیں کہ ترکِ رفع بھی سنت ہے، یہ بڑی بے انصافی ہوگی۔ ایسا ترک جس کے پیچھے دلائل ناپید ہوں، قطعاً سنت نہیں ہو سکتا۔ اوّل تو متروک کو سنت کہنا ہی محلِ نظر ہے۔ ایک ہی فعل پر عمل اور ترک دونوں سنت ہوں، مضحکہ خیز ہے۔ جہاں ایک طرف دلائل کے انبار ہوں، اس کے بالمقابل ترک کو سنت کہنا قطعاً معقول نہیں۔ اکابر دیوبند سے بعض مستند علماء نے دونوں کو سنت فرمایا ہے۔ ہمیں ان کی اس روش پر تعجب ہے۔ عفا اللہ عنہم۔ شاہ ولی اللہ صاحب کا ارشاد بھی یہی ہے کہ دونوں سنت ہیں، لیکن آخر میں فرماتے ہیں۔  ((والذی یرفع أحب إلی ممن لا یرفع فإن أحادیث الرفع أکثر وأثبت )( ( حجۃ اللہ البالغہ: 2/8) ”یعنی رفع الیدین کرنے والا، نہ کرنے والے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لیے کہ رفع الیدین کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح بھی“ جلسۂ استراحت جلسہ استراحت استحبابی امر ہے۔ تاہم اگر احباب انصاف کی نگاہ سے دیکھتے تو کم از کم جلسہ استراحت کے ترک کو ترجیح نہ دیتے۔ انصاف پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ جناب دونوں احادیث کے مفہوم اور اسناد پر نگاہ ڈالتے، جلسہ کی تائید میں مالک بن حویرث کی حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے۔  ((إذا کان في وتر من صلوٰته لم ینھض حتی یستوی جالسا ))[1] ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ کر کھڑے ہوئے“ امام ترمذی فرماتے ہیں:
[1] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث(789) سنن الترمذی، رقم الحدیث(287)