کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 280
رسول الله صلى الله عليه وسلم علام تومئون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس إنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه من على يمينه وشماله)( (صحيح مسلم 1/181) یعنی جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تو ہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے اور دونوں طرف ہاتھوں سے اشارہ کرتے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ اشارے کیوں کرتے ہو جیسے تیز گھوڑے دم ہلاتے ہیں۔ تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ ران پر ہاتھ رکھو۔ پھر اپنے بھائی کو سلام کہو۔‘‘ یہ تمام احادیث جابر بن سمرہ ہی سے مروی ہیں۔ تمام کا مضمون ایک ہی قسم کا ہے۔ بین طور پر معلوم ہوتا ہے واقعہ میں کوئی فرق نہیں۔ اجمال اور تفصیل کا فرق ہے۔ آپ ایسے اصلاح پسند حضرات کو ایسی سطحی بات نہیں فرمانی چاہئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((لا يحتج بهذا إلا من لا حظ له من العلم))[1] اس حدیث سے وہی استدلال کرے گا جسے علم سے کوئی حصہ نہیں ملا۔ اگر یہ استدلال صحیح سمجھا جائے تو اس کا اثر تکبیرات عیدین، تکبیر افتتاح، تکبیر قنوت پر بھی پڑے گا۔ ابن حبان فرماتے ہیں:  ((إنما أمروا بالسكون في الصلاة عند الإشارة بالتسليم دون الرفع الثابت عند الركوع )) [2] (عون المعبود ص1/382) یعنی یہ سکون کا حکم سلام کے وقت تھا۔ رفع الیدین عند الرکوع کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ [3]
[1] ۔ جزء رفع اليدين للبخاري (35) [2] ۔ صحيح ابن حبان(5/199) [3] ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب پر از حد تعجب ہے کہ یہاں وہ حدیث ِ جابر کو حنفی مذہب کی تائید میں معرضِ استدلال میں ذکر فرمارہے ہیں، جبکہ آنجناب خود ہی اپنی ایک دوسری کتاب میں حدیثِ جابر