کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 28
مسلمانوں کی تاریخ میں خدمت حدیث کا باب روشن ہے، لیکن افسوس کہ یہ علاقہ انکار حدیث کی متنوع کوششوں کے لیے بھی مشہور ہے، اسی وجہ سے علوم کتاب وسنت سے متعلق کسی بھی موضوع پر روشنی ڈالنے والا ہر صاحبِ قلم مذکورہ فتنے سے بچنے کے لیے تنبیہ کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ منکرینِ حدیث اپنی توجہ کا مرکز قرآنِ کریم کو بتاتے ہیں اور قرآن کی تفسیر کے لیے قلمی کاوش کرتے ہیں اور اس کاوش کو واجب التسلیم قراردیتے ہیں، گویا اسے ماننا قرآن کو ماننا ہے۔ تفسیر قرآن میں حدیث کی ضرورت کے انکار کے بعد منکرین ِ حدیث کا مذکورہ رویہ بےحد افسوس ناک اور تعجب انگیز ہے۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے منکرین کے اس موقف پر چبھتے ہوئے انداز میں لکھا ہے: ”ان کے ہاں اس تشریح کو، یعنی منکرین کی تشریح کو، قبول کرنا گویا قرآن کوماننا اور قبول کرنا ہے، مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے رفقائے کرام قرآن کے مقاصد کو بیان کریں تو اسے یہ حضرات نہ قبول کرتے ہیں نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، بلکہ قطعاً ناپسند کرتے ہیں۔ “(ص:78) اسی پیش لفظ میں محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خدمتِ اسلام کے دعوے میں چند رسموں او رنعروں کی پابندی کرنے اور اسے اسلام وایمان کی بنیاد سمجھنے کا بھی ذکر ہے۔ اس پر مصنف کا یہ معنی خیز جملہ قابلِ توجہ ہے: ”اسلام ایسے فعال مذہب کا انحصار چند رسموں اور نعروں پر ہو، ضمیر اس سے اباء کرتا ہے۔ “(ص:78) ٭ مصنف نے تقلید وجمود کے آغاز اور پھر اس کے ناخوشگوار اثرات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے: ”ان فقہی فروع میں نہ حق کسی ایک میں محصور ہوتا ہے نہ دوسرے اہل تحقیق