کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 279
لیا گیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ مولانا عثمانی انصاف پسندی سے اس کا اقرار کریں گے۔ صفائی سے فرمائیں گے کہ احناف واقعی اس مسئلہ میں تہی دست ہیں۔ لیکن مولانا نے جو طریق گفتگو اختیار فرمایا ہے اس سے انہوں نے اپنے محاسن میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔ اہل علم جانتے ہیں۔ صدیوں کے متنازعہ فیہ مسائل جن پر امت کے اعلام بار ہا طبع آزمائی فرما چکے ہوں ایسے بے سہارا تو نہیں ہو سکتے۔ کوئی نہ کوئی صحیح یا غلط سہارا تو ضرور ہوگا۔ آپ نے ان سے ایسے مشہور مسائل کا انتخاب فرمایا جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ مناسب تھا کے پرانے نوالے چبانے کی کوشش نہ کی جاتی۔ بلکہ اس میں کوئی نئی تحقیق سامنے لاتے۔ ورنہ ان مسائل تو فریقین ایک دوسرے کی انتہا کو خوب سمجھتے ہیں۔ اب آپ نے طبع آزمائی کے لیے ان مسائل کو انتخاب فرمالیا تھا۔ اس لیے مجھے بھی اس کے متعلق عرض کرنا ہوگا۔
میں نے عرض کیا ہے اس مسئلہ میں آپ فی الواقعہ تہی دست ہیں اور دلائل کے لحاظ سے کمزور۔ آپ نے اس وقت دو احادیث ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی حدیث کی نقل میں آپ نے اپنے پہلے بعض بزرگوں کی تقلید میں بڑی جسارت سے کام لیا ہے۔ ورنہ اس حدیث میں رفع الیدین عند الرکوع کا بالکل ذکر ہی نہیں۔ اکابر حنفیہ رحمہم اللہ محض سینہ زوری سے اس کا تذکرہ فرماتے ہیں اور آپ حضرات ان پر اعتماد فرما کر جرات فرما دیتے ہیں۔ ورنہ دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ضمن میں اس کا تذکرہ ہی نہ کیا جائے۔ مگر جناب نے جو فرمانا تھا فرما دیا ہے۔
پہلی حدیث:
صحیح مسلم میں اس حدیث کو چار طرق سے روایت فرمایا ہے۔ تحویلات کو میں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ ابو داؤد میں بھی معمولی اختلاف کے ساتھ قریباً یہی اسانید منقول ہیں۔ بعض میں تین مختصر ہے اور بعض میں مفصل۔ حدیث ایک ہے۔ اس کی روایت کے الفاظ واضح ہے:
((عن جابر بن سمرة قال: كنا إذا صلينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا السلام عليكم ورحمة الله، وأشار بيده إلى الجانبين، فقال