کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 278
پر رکھا اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھے۔ مزید بحث عون المعبود (ص276 ج1) میں ملاحظہ فرمائیں۔ تحقیق یہ ہے کہ یہ احادیث تحت السرۃ کی روایت سے زیادہ صحیح ہیں۔ اس لئے اہل حدیث اس مسلک کو راجح سمجھتے ہیں۔ امام احمد بن فوق السرہ اور تحت السرہ دونوں طرح منقول ہے۔ ((واختلف في موضع الوضع، فعنه فوق السرة، وعنه تحتها وعن أبي طالب سألت أحمد أن يضع يده إذا كن يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل وكل ذلك واسع عنده )) (بدائع الفوائد: 3/91) یعنی دونوں ہاتھ باندھنے کے مقام میں اختلاف ہے۔ ابو طالب امام احمد سے نقل فرماتے ہیں کہ اس میں وسعت ہے۔ دونوں امر درست ہیں۔ امام شافعی بھی فوق السرہ ہی کو پسند فرماتے ہیں۔ تحت السرہ کے متعلق جس قدر آثار ہیں۔ ان میں کوئی صحیح نہیں۔ تاہم آپ کے مسلک کو خود ساختہ کہنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیاد ضعیف آثار پر ہے۔ اس لیے اہل حدیث کا مسلک بلحاظ سندراجح ہے لیکن اسی مقام پر بعض حضرات بے حد غلو کرتے ہیں۔ اور یہ غلو دونوں طرف سے ہو رہا ہے۔ جس کی اصلاح کی ضروری ہے۔ تحت السرہ کے قائلین بعض حضرات ہاتھوں کو اس قدر لٹکا دیتے ہیں کہ تحت السرہ کی بجائے فوق العانہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یعنی زیر ناف تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور فوق السرہ کے قائل تحت العنق یعنی گلے کے قریب باندھتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں نہایت بدنما اور مکروہ محسوس ہوتی ہیں۔ رہا ادب اور تعظیم وہ تو سینہ پر ہاتھ باندھنے سے ہوتا ہے۔ ہاتھ نیچے تک لٹکا دینا تو ادب کے خلاف ہے۔ نہیں بلکہ مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ تلاوت کے وقت سلام کے بعد ادب کے لیے عموماً ہاتھ سینہ پر ہی رکھے جاتے ہیں۔ زیر ناف رکھتے آج تک ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رفع الیدین عند الرکوع اس مسئلہ میں واقعی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ محض تحکم اور سینہ زوری سے کام