کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 277
ہے۔ مولانا نے بھی اس کے ضعف کو قریباً تسلیم فرمایا ہے یہ حدیث ابو داؤد کے بعض نسخوں میں ہے۔ [1] اسی طرح علىٰ صدره کی روایت ابو داؤد کے بعض نسخوں میں موجود ہے۔ [2]تحت السرۃ کی روایت گو حکما مرفوع ہے لیکن وہ بجمیع اسانید ضعیف ہے اس کی تمام اسانید کا انحصار عبد الرحمٰن بن اسحاق واسطی پر ہے جو باتفاق ائمہ رجال ضعیف ہے۔ فوق الصدر کی بعض روایات میں بھی ضعف ہے۔ لیکن دو احادیث اس میں صحیح ہیں : پہلی حدیث: ((حديث يحيى بن سعيد عن سفيان حدثنا سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته يضع هذه علىٰ صدره ووصف يحيى اليمنى على اليسرىٰ فوق المفصل)) (مسندامام أحمد ص226 ج5 طبع جدید احمد شاکر) دوسری حدیث: ابن خزیمہ سے منقول ہے جس کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا: ((عن وائل بن حجر قال صليت مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى علىٰ صدره، رواه ابن خزيمة)) [3] (مع سبل السلام 1/159) حافظ ابن خزیمہ سے اس کی تصحیح بھی منقول ہے۔ ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں
[1] ۔ سنن ابي داؤد نسخة ابن الاعرابي (ص:280) سنن البيهقي(2/31) امام بیہقی نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد اس حدیث کے راوی”عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی“ پر ائمہ حدیث سے جرح نقل کی ہے اور اسے متروک قراردیا ہے۔ [2] ۔ دیکھیں:سنن ابي داؤد رقم الحديث(759) یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، لیکن اس معنی کی دیگر صحیح احادیث موجود ہیں، جیسا کہ مؤلف رحمہ اللہ نے آگے ذکر کیا ہے۔ [3] ۔ صحیح ابن خذیمۃ (1/243)