کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 273
انتہائی خطرات ہیں۔ عصبیت اور باہم بغض وعداوت کی آبیاری ہوکی۔ اس روش پر غور فرمائیے۔ ع فاحفظ وقيت فتحت قدمك هوة كم قد هوى فيها من الإنسان[1] اقوال ائمہ تقلید کے رد میں ائمہ اجتہاد تقلید کے رد میں متفق ہیں اور انہوں نے صراحتاً اپنی اور غیر کی تقلید سے تاکیداً رو کا ہے۔ [2]مولانا فرماتے ہیں : ”یہ حکم ان لوگوں کے لیے نہیں جو صلاحیت اجتہاد سے مرحوم ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جن میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ “ ارشاد گرامی موجب تعجب ہے۔ مجتہد تو تقلید کا مکلف ہے نہیں اسے روکنا عبث ہے۔ دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو مقام اجتہاد کو نہیں پہنچے لیکن وہ دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں جیسے جناب یا اس قسم کے دوسرے علما۔ عامی کا تو یوں ہی کوئی مذہب نہیں وہ بے چارہ ائمہ اجتہاد سے کہیں زیادہ محلے کی مسجد کے امام کا مقلد ہوتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں؟ اس کی زندہ مثال ہمارے عوام ہیں اور بریلوی علماء۔ عوام ان مزخرفات کو حنفی مذہب سمجھتے ہیں، حالانکہ ان پریشان خیالیوں کی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرشتوں کوبھی خبر نہیں تھی۔ اب صورت حال یوں ہے کہ مجتہد کو تقلید کی ضرورت ہے نہیں، آپ اور ہم ایسے لوگوں کو خود ائمہ نے روک دیا۔ عامی بے چارے کا کوئی مذہب ہی نہیں وہ تو ان علما کا مقلد ہے جن کو تقلید حکماً روک دیا گیا ہے فأین التقلید؟
[1] ۔ سنبھل کر۔ تو محفوظ رہے کہ تمہارے پاؤں کے نیچے گڑھا ہے، کتنے ہی انسان اس میں گرِ چکے ہیں۔ [2] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:اصل صفة صلاة النبي صلي الله عليه وسلم للباني (1/23)