کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 271
پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ متاخّرین نے سنّتِ نبوی پر عمل کی بجائے ائمہ کے عمل کو سنت پر ترجیح دینے میں غلوّ سے کام لیا۔ کبھی تہجّد اور قیامِ رمضان کو الگ الگ فرمایا گیا۔ کبھی آٹھ رکعت کو بدعت اور غیر ثابت کہنے کی جسارت فرمائی گئی۔ بعض نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اعتراف کیا کہ نماز تو ایک ہی ہے۔ رمضان میں تراویح سے الگ تہجد ثابت نہیں۔ لیکن سنت صحابہ بیس ہے (مولانا سیّد انور شاہ صاحب) اس غلو اور پریشان خیالی میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی سے لے کر آج کے نو آموز طلبہ تک مبتلا ہیں۔ اکابر پرستی کے سوا اس کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بات واضح تھی۔ جس طرح بیس نوافل پر کوئی اعتراض نہ تھا آٹھ یا دس پر بھی اعتراض نہ کیا جاتا((كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ))اس کے باوجود حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی کے ساتھ کچھ اور رفقا ایسے ہوں گے جو اکابر پرستی کے اس غلو کو طبعاً ناپسند فرماتے ہوں تو وہ یقیناً عموم آیت سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن اس سے غالی حضرات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ عز بن عبد السلام فرماتے ہیں: ((وَمِنْ الْعَجَبِ الْعَجِيبِ أَنَّ الْفُقَهَاءَ الْمُقَلِّدِينَ(7) يَقِفُ أَحَدُهُمْ عَلَى ضَعْفِ مَأْخَذِ إمَامِهِ بِحَيْثُ لَا يَجِدُ لِضَعْفِهِ مَدْفَعًا وَمَعَ هَذَا يُقَلِّدُهُ فِيهِ، وَيَتْرُكُ مِنْ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَالْأَقْيِسَةِ الصَّحِيحَةِ لِمَذْهَبِهِ جُمُودًا عَلَى تَقْلِيدِ إمَامِهِ، بَلْ يَتَحَلَّلُ لِدَفْعِ ظَوَاهِرِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَيَتَأَوَّلُهُمَا بِالتَّأْوِيلَاتِ الْبَعِيدَةِ الْبَاطِلَةِ نِضَالًا عَنْ مُقَلِّدِهِ، )) (حجۃ اللہ ص124) یعنی یہ عجیب بات ہے کہ فقہاء مقلدین اپنےامام کے ماخذ کے ضعف کو سمجھتے ہیں اور کوئی اس کا صحیح دفاع نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے باوجود اس کی تقلید کرتا ہے