کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 269
یعنی ان آیات سے تقلید کی مذمت ثابت ہوتی ہے، علماء نے ان آیات سے تقلید کا باطل ہوناثابت کیا ہے، ان آیات کا کفار کے متعلق ہونا استدلال سے مانع نہیں ہوا، کیونکہ یہاں کفر واسلام میں تشبیہ نہیں ہے۔ تشبیہ اس میں ہے کہ کوئی بات بلادلیل قبول کی گئی ہے، کوئی تقلید کی وجہ سے کافر ہوا، کوئی گناہ گار ہوا، کسی نے دنیوی معاملات میں تقلید کرکے خطا کی، سب قابلِ سلامت اس لیے ہوں گے کہ بلادلیل کسی کو بات قبول کرلی۔ سوال کفر واسلام کا نہیں، سوال یہ ہے کہ جہاں تحقیق کی ضرورت تھی اور اپنے مقام کے لحاظ سے ممکن بھی تھی، عامی امام کا مذہب دریافت کرنے کی بجائے قرآن وسنت سے کیوں روشنی حاصل نہ کرے اور شریعت کا مسئلہ کیوں نہ پوچھے؟سائل کے جواب میں یا اس کے فہم اور راہ شناسی میں کہیں بھی شبہہ پیدا ہو، (( لَا یَعْقِلُوْنَ)) اور((لَا يَهْتَدُونَ)) کی علت پائی جائے گی، جس سے تقلید کا مذموم پہلو واضح ہوجائے گا۔ حافظ عبدالبر نے بھی اس مقام کی وضاحت اسی انداز سے فرمائی ہے۔ دیکھئے:جامع بیان العلم(2/115، 18) دوسری دلیل: تقلید کے خلاف دوسری دلیل آیت: ((اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)) بیان کی جاتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں:”ہم انھیں شارح سمجھتے ہیں، شارع نہیں۔ “ لیکن ادباً گزارش ہے کہ ہم اس آیت میں عدی بن حاتم کی روایت [1]سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے۔ آپ خدارا سنجیدگی سے غور فرمائیں، مناظرانہ انداز اختیار نہ کریں، صورتِ حال میں سرِمُو فرق نہیں۔ ہمارے ہاں متون ِ فقہ بالکل نصوص کے ہم پایہ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے مقلد علماء
[1] ۔ دیکھیں:سنن الترمذی، رقم الحدیث(3095)