کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 268
”تقلید مطلق کو اس لیے روک دیا گیا کہ اس سے خواہش پرستی کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اور ممکن ہے کہ حلال وحرام کاامتیاز اٹھ جائے۔ “ (فاران، ص : 17 مئی 1965ء) آپ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اجتہادات اور فقہیات میں ایسا مواد موجود ہے جس سے نفس پرستی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، گویہ درست ہے کہ مروجہ تقلید بت پرستی کی تقلید سے مختلف ہے، لیکن اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ نفس پرستی میں ملوث ہوکرمقلد حلال وحرام کے امتیاز کو کھو بیٹھے۔ اس میں یہ خطرہ بھی ہوگا کہ عامی کسی صریح نص کی مخالفت کر بیٹھے، جس کا معتقد فیہ امام کو علم نہیں ہوسکا او روہ اس سے مخفی رہی۔ اگر اسے مختلف علماء سے مل کر تحقیق کی اجازت دی جائے، جناب کے حسب الارشاد تقلیدِ مطلق بلکہ بلا تخصیص علماء کی طرف مراجعت کو خارج البلد نہ کیا جائے تو عوام اور خواص ان خطرات سے بچ سکتے ہیں۔ بنابریں عموم الفاظ کی بنا پر آیت مرقومۃ الصدر: ((بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا.....الخ))اس تقلید کو بھی شامل ہوگی، حکم اورمرتبے میں فرق ہوگا۔ شیخ صالح بن محمد بن نوح فلانی رحمہ اللہ تقلید کی مذمت میں اس مضمون کی بہت ساری آیات ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں: ((ومثل هذا في القرآن كثير من ذم تقليد الآباء والرؤساء، وقد احتج العلماء بهذه الآيات في إبطال التقليد ولم يمنعهم كفر أولئك من الاحتجاج بها، لأن التشبيه لم يقع من جهة كفر أحدهما وإيمان الآخر، وإنما وقع التشبيه بين التقليدين بغير حجة للمقلد، كما لو قلد رجلا فكفر، وقلد آخر فأذنب وقلد آخر في مسألة فأخطأ وجهها، كان كل واحد ملوما على التقليد بغير حجة، لأن كل ذلك تقليد يشبه بعضه بعضا وإن اختلفت الآثام فيه)) (ایقاظ الھھم للفلانی، ص:35)