کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 267
ہے، اس سے کتنا ہی اختلاف رائے کیوں نہ ہو، مگر ہر اعتبار سے ان کی جلالتِ قدر ہر ایک کو مسلّم ہے، اس لیے اس تقلید کو کافروں کی تقلید پر منطبق کرنا بڑا ظلم ہے۔ “ جواباً گزارش ہے کہ مجھے مولانا سے پورا اتفاق ہے کہ موجودہ تقلید اس سے کسی قدر مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ائمہ مجتہدین کی جلالتِ قدر ہرلحاظ سے مسلم ہے۔ ان کا علم، زہد، تقوی شبہات سے بالا ہے، ان کی ذات علم وایمان کے لحاظ سے قطعاً زیرِ بحث نہیں، بلکہ ان کے علمی احسانات امت پر اس قدر ہیں کہ ان کے متعلق سوئے ظن بے ادبی ہی نہیں بلکہ نمک حرامی ہے، لیکن اب زیر بحث چند چیزیں ہیں: 1۔ آیا قرآن وسنت میں کوئی نام بطور مجتہد یا امام صراحتاً مرقوم ہے؟ 2۔ پھر ان تمام بزرگوں کا علم یکساں تھا یا حسبِ ارشاد قرآنِ عزیز: ((وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ)) ان کے علمی درجات میں تفاوت ہے؟ 3۔ پھر ان پاکباز بزرگوں کے سامنے آیا احادیث کے جو ذخائر مختلف ممالک میں موجود تھے، یکجا شائع ہوچکے تھے یا کچھ مخفی تھے؟ 4۔ پھر آیا یہ سارے بزرگ اجتہادی مسائل میں متفق ہیں؟ان کی فقہیات میں باہم کوئی اختلاف نہیں؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالیہ گزارشات کا جواب نفی ہے۔ شارع نے ان کا نام بطور امام لیا ہے نہ ان کا علم یکساں ہے، نہ سنت کے تمام ذخائر اس وقت موجود تھے، نہ ان کے اجتہادات اختلاف سے خالی ہیں۔ پھر ایک عامی فقدانِ علم یا کم علمی کی وجہ سے ان تمام اجتہادات کو قبول کرے گا، جو ان میں سے کسی ایک بزرگ نے فرمائے، جس کو اس نے امام یا مقتدیٰ تصور کیا۔ دوسر ے امام کے تمام اجتہادات کو نظر انداز کرے گا جن میں اس نے اس کے امام سے اختلاف کیا ہو؟ آپ نے پہلے فرمایا: