کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 266
عقد الجید، بدور بازغہ، خیر کثیر، تفہیمات اول وثانی، انتباہ، الوصیت وغیرہ پر مکرر نظر فرمائیں، آپ یقین فرمائیں گے کہ شاہ صاحب کا موقف کس قدر صاف ہے اور وہ مروج تقلید سے کس قدر بیزار ہیں۔
عزیزاں را ازیں معنی خبر نیست
کہ”سلطان جہاں“ با ما است امروز[1]
تقلید پر شبہات
حضرت مولانا نے اس عنوان کے نیچے ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے، جو بعض حلقوں کی طرف سے وجوبِ تقلید پر کیے گئے ہیں یا ان دلائل کا جواب دینے کی سعی فرمائی ہے۔
پہلی آیت:
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (المائدۃ:104)
”جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا اس کی اطاعت کرو، وہ کہتے ہیں ہم تواس چیز کی اطاعت کریں گے جس پر ہم نے بزرگوں کو پایا، گو ان کے بزرگ اس کے فہم سے ناآشنا ہوں نہ ہی وہ سیدھی راہ کو پاسکے ہوں۔ “
مولانا فرماتے ہیں:
”یہ باپ دادوں کا ذکر ہے، جو احکام الٰہی کا برملا رد کرتے ہوں، دوسرے وہ باپ دادے جو عقل اور ہدایت سے کورے تھے۔ “
آخر میں مولانا فرماتے ہیں:
”اس سے کوئی اہلِ حق انکار نہیں کرسکتا کہ جن ائمہ مجتہدین کی تقلید کی جاتی
[1] ۔ دوستوں کو اس چیز کی خبر نہیں ہے کہ وقت کا بادشاہ آج ہمارے ساتھ ہے۔