کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 264
اور آپ کے رفقاء شاہ صاحب کے ارشاد کو اس کی اصل روح میں سمجھیں تو یہ وجوب تقلید کی کھلی مخالفت ہے۔ (( اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَـذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَـهٝ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ)) میں ان اقتباسات کو ترک تقلید کی تائید سمجھتا ہوں اور اس لیےان کے سیاق و سباق پر مفصل بحث کی ضرورت خیال نہیں کرتا۔ اب شاہ صاحب کا ایک ارشاد عرض کر رہا ہوں جو جناب کے اس ارشاد کی پوری نقیض ہے کہ”تقلید کو تقلید شخصی میں محصور کردیا گیا۔ “شاہ صاحب شعرانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: ((ثم نقل عن جماعۃ عظیمۃ من علماء المذاھب انھم کانوا یعملون و یفتون بالمذاھب من غیر التزام مذہب معین من زمن اصحاب المذاھب لی زمانہ علی وجہ یقتضی کلامہ ان ذالک امر لم یزل العلماء علیہ قدیما و حدیثا حتی صار بمنزلۃ المتفق علیہ فصار سبیل المؤمنین الذی لا یصح خلافہ الخ)) (عقد الجید، ص، 53 طبع مصر) ”اہل علم کی عظیم جماعت مذہب معین کے بغیر فتوی دیتی رہی اور ان پر عمل فرماتی رہی۔ یہ سلسلہ ائمہ مذاہب سے لے کر شعرانی کے وقت تک جاری رہا شعرانی کا منشا یہ ہے کہ علما کی یہ روش ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہی ہے اور یہ طریقہ متفقہ اور اجماعی ہو گیا، جس سے اختلاف طریق مومنین سے اختلاف کے مترادف ہے۔ “ اسی کے قریب قریب ”عقد الجيد“ (ص:28) میں فرمایا۔ پھر اسی طرح عزبن عبدالسلام سے نقل فرمایا: (عقد الجيد، ص:40) میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ شاہ صاحب کا مطلب وجوب تقلید سے وجوب شرعی نہیں، بلکہ ان کا مطلب وقتی ضرورت ہے۔ اس کے لیے شاہ صاحب کے مندرجہ ذیل ارشاد پر غور فرمائیے: