کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 263
صورت اختیار کر لی، جسے مولانا سید نذیر حسین صاحب اور ان کے تلا مذہ نے پروان چڑھایا، جس سے اس وقت لاکھوں آدمی متاثر ہیں، جو ملک میں حریت فکر اور طریقہ سلف کی تلقین فر ما رہے ہیں۔ مولانا نے شاہ صاحب سے تین اقتباس درج فرمائے ہیں، دو رسالہ انصاف سے، ایک حجۃ اللہ سے، مگر شاہ صاحب نے انصاف کے دونوں اقتباسات میں تقلید کو وقتی طور پر واجب فرمایا، شرعی واجب نہیں فرمایا، جس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت ان حالات میں تقلید ضروری ہے۔ فرماتے ہیں: ”پہلی دوسری صدی میں لوگ معین انسان کی تقلید پر جمع نہ تھے، دوسری صدی کے بعد اثر بڑھنے لگا۔ ((وکان ھو الواجب فی ھذا الزمان)) ”اس وقت یہی واجب تھا“ فرمائیے! کیا واجبات شرعیہ کا وجوب وقتی ہوتا ہے؟ دوسرے اقتباس میں صرف و نحو کا تذکرہ فرماتے ہیں: ”یہ پہلے واجب نہ تھا: ((ثم صار فی یومنا ھذی معرفتھا واجبۃ)) لیکن آج کل صرف نحو پڑھنا واجب ہے۔ “ گویا تقلید شخصی کا وجوب صرف و نحو کے وجوب کی طرح وقتی ہے اور ضرورت کے لیے۔ حضرت مولانا اور دانش مند حضرات غور فرمائیں، وجوب شرعی کا یہی حال ہے اور ایسے وقتی وجوب کا اگر کوئی انکار کرے یا اسے یقین ہو کہ اب حالات کے تقاضے بدل چکے ہیں تو شرعاً وہ کہاں تک مجرم ہے؟اس کے ساتھ ہی واقعات آپ کو یقین دلائیں گے کہ ترک تقلید کے متعلق اس وقت جو خطرات تھے، بحمد اللہ آج وہ بالکل بدل چکے ہیں۔ جناب کے لب و لہجے کی یہ تبدیلی اسی حقیقت کی غماز ہے کہ اب وہ حالات نہیں رہے، وقت اور اس کے مقتضیات اصحاب عزائم کی مساعی کی وجہ سے بالکل زیادہ تر بدل چکے ہیں۔ حجۃ اللہ کے اقتباس میں تو شاہ صاحب نے اسے تعبیر ہی جواز سے فرمایاہے۔ اگر مولانا