کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 262
صلحاء اور اتقیاء کی کثرت ہے۔ اور جب سے آپ کے اس نسخے کا استعمال شروع ہوا، یہی وقت حسب ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور فتن کا دور ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے فواحش اور فتن کا دور فرماتے ہیں اور جناب اس پر رحمتوں کے ہُن برسانے کے آرزو مند ہیں !بظاہر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف امید نہیں کی جا سکتی کہ دعا قبول ہو، اور نسخہ حضرت سے تو ظاہر ہے خواہش پرستی نہیں رُک سکتی۔
شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور تقلید:
مولانا نے صفحہ (19) میں فرمایا ہے کہ ”صحابہ اور تابعین کے وقت تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں پر عمل رہا تھا۔ (یعنی بقول جناب ورنہ حقیقت اس کے خلاف ہے)بعد میں جب یہ زبردست خطرہ سامنے آیا تو تقلید کو تقلید شخصی ہی میں محصور کردیا گیا۔ “الخ
اس کے بعد جناب شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے چند اقتباسات درج فرمائے ہیں، جن میں کہیں تقلید کو جائز فرمایا کہیں واجب!
واقعہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار ہیں۔ شاہ صاحب کا سیال قلم ان تمام ادوار میں اپنا کام کرتا رہا۔ ہر وقت کے تاثرات شاہ صاحب کے قلم سے ظاہر ہوتے رہے۔ شاہ صاحب کا جو حصہ تصوف کے متعلق ہے، اس میں ایسا مواد ملتا ہے جس سے بریلویت کی خاصی تائید ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات کو شاہ صاحب اور ان کے خاندان پر اعتماد نہیں، ورنہ شفاء العلیل وغیرہ سے بدعی خیالات کی خاصی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اہل حدیث اور حضرات دیوبند تو شاہ صاحب کے عقیدت مند ہیں، جہاں تک اہل حدیث کا تعلق ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ شاہ صاحب کا رجحان احناف کی طرف بعض جگہ نمایاں ہے، ان کے ہاں شاہ صاحب کے احترام اور ان سے عقیدت میں فرق نہیں آیا۔ شاہ صاحب جمود کے سخت مخالف ہیں۔ آج جو بیداری اور حریت فکر ملک میں موجود ہے، اس کی ابتدا حضرت مجدد الف ثانی سے ہوئی، لیکن اسے کھل کر نمایاں حضرت شاہ صاحب نے فرمایا، اسی بیداری کی تحریک نے شاہ اسماعیل شہید اور ان کے مخلص رفقا میں ترک تقلید کی