کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 261
مذہب ہے۔ عبد اللہ بن عمر مدینہ منورہ میں امراء کے ساتھ ساتھ بارش کے وقت نماز جمع کیا کرتے تھے۔ کسی آدمی پر یہ ضروری نہیں کہ تمام اوامر و نواہی میں کسی معین آدمی کی تقلید کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا۔ مسلمان ہمیشہ اہل علم سے دریافت فرماتے رہے، کبھی اس کی تقلید کرتے، کبھی اس کی، جسے دینی طور پر پسند فرماتے یا راجح سمجھتے۔ یہ جمہور ائمہ اسلام کے نزدیک درست ہے، نہ اسے حضرت امام ابو حنیفہ نے حرام کہا نہ مالک اور نہ شافعی اور احمد ہی نے۔ “
اسی اندازسے امام نے تقلید کا تذکرہ فرمایا۔ فتاوی(2/376۔ 378، 381۔ 383) وغیرہ مقامات ملاحظہ فرمائیں۔ امام کے مسلک کی وضاحت جناب کے سامنے آجائے گی۔ اگر آپ حضرات امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی حنبلیت اور ان کے خیال کے مطابق اس مسئلے کا فیصلہ فرمائیں تو یقیناً یہ مسئلہ مابہ النزاع نہیں رہے گا۔ جس انداز سے ابنائے دیوبند اس مسئلے کو اچھال رہے ہیں، اگر حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی زندہ ہوں تو یقیناً اسے ناپسند فرمائیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا جو حوالہ آپ نے نقل فرمایا، وہ ایک فنی حوالہ ہے، جسے امام نے ایک خاص ضرورت کے ماتحت ذکر فرمایا ہے، اس سے ان کی ذاتی تحقیق معلوم نہیں ہو سکتی۔ ذاتی تحقیق کے لیے متذکرہ مواقع ملاحظہ فرمائیں، امام کا علمی مقام واقعی بہت بلند ہے۔ نیز اس حوالے میں تقلید مطلق کی بندش کا بھی کوئی تذکرہ نہیں۔ جناب غور فرماتے تو یہ حوالہ بالکل بے سودہے اور مقصد کے لحاظ سے عبث محض۔ اصل مقصد یہی ہے کہ دین اور ائمہ دین کو تلعب اور ہویٰ پرستی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے، یہ نیت کا معاملہ ہے، اسے نہ تقلید شخصی روک سکتی ہے نہ ترک تقلید اس کا موجب ہو سکتی ہے۔
آپ واقعات پر غور فرمائیں، تقلید شخصی کا عام رواج بقول شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ چوتھی صدی کے بعد ہوا، قرون مشہود لہا بالخیر میں سارا افتا ترک تقلید یابقول مولانا تقلید مطلق پر رہا، یہی وہ دور ہے جس میں اہل اللہ، ائمہ اجتہاد، ائمہ محدثین،