کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 26
خلافیات میں اُلجھ کر کتاب وسنت کی اصل دعوت سے بیگانہ ہوگئی اور دین کی سربلندی کے لیے جو اقدام کرنا تھا، اس کا رُخ کسی اور طرف مُڑگیا۔
کتاب اور مؤلف سے متعلق گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے میں عربی ترجمے سے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ یہ تحریر اردو اشاعت سے متعلق ہے۔ کتاب کا عربی ترجمہ”حركة الانطلاق الفكري وجهود الشاه ولي الله في التجديد“ کے عنوان سے جامعہ کے عربی مجلّے میں بالاقساط شائع ہوا کرتا تھا۔ جب یہ مکمل ہوگیاتو میں نے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ جامعہ کے ذمے داران کی طرف سے اس کی اجازت مل گئی۔ پھر میں نے جامعہ کے اولین صدر شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ الرحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ سے اس ترجمے کی تقدیم کے لیے گزارش کی تو موصوف نے میری درخواست منظور فرمائی اور یہ تقدیم زینتِ کتاب بن گئی۔ فالحمد لله علي ذلك۔
”حركة الانطلاق “کی اشاعت اول ختم ہوگئی تو اس کی دوسری اشاعت کا مطالبہ سامنے آیا۔ اس اشاعت کی تکمیل وتحسین میں عزیز مکرم ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی(استاذ حدیث امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض) کا کردار اہم رہا۔ موصوف کے پاس لاہور کا شائع شدہ”تحریکِ آزادیِ فکر“کی دوسری اشاعت کا نسخہ تھا، جس میں بعض مباحث کا اضافہ تھا۔ میں نے ان کا ترجمہ کیا اور عزیز موصوف کے ساتھ پوری کتاب کا مراجعہ کیا اور اس طرح دوسری اشاعت بھی جامعہ سلفیہ کے پریس میں طبع ہوکر منظر عام پر آئی۔ اس دوسری اشاعت کے ساتھ بعض شامی علماء کی تحریریں بھی ہیں، لیکن بنظرِ اختصار اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔
تقدیم کے اس حصے کو مزید طول دینے کی ضرورت نہیں، آئندہ سطور میں قارئین کرام کے سامنے تقدیم کا دوسرا حصہ ہے، جسے ملاحظہ فرماکر انھیں اندازہ ہوگا کہ کتاب