کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 258
ثابت نہیں ہوا، اسی طرح آج کل دنیا میں حلال اور حرام کا امتیاز بھی اٹھ رہا ہے، اگر جناب کا تجزیہ تقلید شخصی کے متعلق درست ہو تا تو آج دنیا تقویٰ سے بھر پور ہوتی، لیکن معلوم ہے کہ دین کھیل ہو رہا ہے۔۔۔ ! ایک مضحکہ خیز مثال: تقلید مطلق کی مضرت میں حضرت مولانا نے دو مثالیں دی ہیں: 1۔ ایک خون سے وضو ٹوٹنے کی۔ احناف کے ہاں خون سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، شوافع کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ آپ کو فکر ہے کہ سردیوں میں ہوا پرست لوگ شافعی مسلک پر عمل کریں گے۔ 2۔ دوسری مثال میں فرمایا: عورت کو مس کرنے سے احناف کے ہاں وضو نہیں ٹوٹتا، شوافع کے ہاں ٹوٹ جاتا ہے۔ ہویٰ پرست اس وقت سردی میں حنفی مذہب پر عمل کریں گے۔ درس میں بیٹھ کر طلبہ کے حلقے میں شاید یہ مثالیں سن لی جائیں، ہم تو دیکھتے ہیں پکے حنفی، رات گزر جاتی ہے، دن بسر ہو جاتا ہے، نماز کے قریب نہیں جاتے اور محفل میلاد کے جلوس میں امسال رات کی دیپ مالا میں عورتوں کے ساتھ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا جس کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ منٹگمری، گوجرانوالہ اور لاہورکے واقعات دیکھنے والوں سے سنیے یہ بھی پکے مقلد تھے، جو وہابیوں کو بے نقط گالیاں دیتے تھے۔ احناف اور شوافع کا متنازع مساس تو اس مساس کے سامنے کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتا پھر یہ محبان رسول اور عاشقان تقلید نماز کی تکلیف کیے بغیر نہایت خشوع اور خضوع سے سو گئے اور تقلید شخصی انھیں اس خواہش سے روک نہ سکی۔ مولانا! کاش یہ ارباب تقلید کسی امام کے مسلک پر عمل کر کے نماز پڑھ لیتے!خواہش پرستی کو روکنے کے لیے تقلید شخصی بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پھر مولانا ! یہ خواہش پرستی نیت کا مسئلہ ہے، اسے تقلید یا ترک تقلید سے کوئی تعلق