کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 256
”جو شراب گندم، جو، باجرا، چنا، شہد، انجیر، شکر وغیرہ سے بنتی ہے، اس پر کوئی حد نہیں، اس لیے کہ اس کا پینا شیخین کے نزدیک حلال ہے۔ امام محمد اسے حرام فرماتے ہیں، لیکن یہ اجتہادی مسئلہ ہے، اس کا پینا قطعی جنایت نہیں، اس پر سزا بھی نہیں ہوگی، بلکہ اگر مستی بھی آجائے تو بھی سزا نہیں ہو گی۔ یہی مذہب صحیح ہے، کیونکہ جب پینا حرام نہ ہوا تو پھر مستی کا کوئی اعتبار نہیں، جس طرح بھنگ وغیرہ میں کوئی سزا نہیں۔ “ شراب کی ان اقسام کے متعلق جواز یا عدم جواز کے وجوہ سے بحث نہیں، یہ مباحث حدیث اور فقہ کی شروح اور متون میں بھرے پڑے ہیں۔ گزارش صرف اس قدر ہے کہ احناف کے ہاں مشروبات میں بڑی لچک ہے۔ اب کوئی اس لیے حنفیت کو اختیار کر لے کہ اس میں شراب اور منشیات کے متعلق کافی لچک ہے۔ شیخ کی عبارت کے مطابق اس نیت سے تقلید شخصی بھی حرام ہوگی۔ آپ نےشیخ الاسلام کی عبارت پر غور نہیں فرمایا، گویا شیخ نے ایک دو جگہ تقلید کا ذکر کیا ہے، مگر اس میں وہ ہویٰ پرستی کو روکنا چاہتے ہیں۔ یہ تقلید کی راہ سے ہو یا ترک تقلید کی راہ سے، آپ نے مطلق تقلید کی بندش پرہن برسانا شروع فرما دیا۔ شیخ کی عبارت سے کہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہوس پرستی تقلید مطلق سے آتی ہے یا شخصی سے یا ترک تقلید سے؟معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو شیخ الاسلام کی کتابوں پر عبور نہیں ہے، ورنہ یہ انداز اختیار نہ فرماتے! علامہ قاضی خاں نے اشربہ کے باب کو اس تفصیل سے لکھا ہے، معلوم ہوتا ہے شاید ان کے ہاں شراب کی مکمل لیباٹری موجود تھی۔ مختلف اقسام اور اس کے مختلف نسخے اور ان کی حلت اور حرمت پر بھی سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ مطبوعہ مصر کے نسخے پر صفحہ (208) سے صفحہ (220) تک یہی مضمون ہے۔ ذاتی طور پر اپنی ناقص رائے کا رجحان تو حضرت امام شافعی کی طرف ہے۔ دخت زر کے ساتھ ادنیٰ نسبت بھی ناگوار ہے، لیکن اس کے باوجود ائمہ اجتہاد پر بد گمانی کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔ اس مقام پر معمولی سی تفصیل کی بھی اس