کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 255
اسی طرح شرح وقایہ میں ہے:
((فإن أقر به أو شهدا عليه بعد زوال الريح أوتقيأها أو وجد ريحها منه أي علم الشرب بأن تقيأ أو وجد ريح الخمر منه بلا إقرار أو شهادة أو رجع عن إقرار شرب الخمر أو السكر أو أقر سكران لا)) (ص:300)
”اگر ملزم اقرار کرے کہ میں نے شراب پی ہے یا دو گواہ موجود ہوں، لیکن منہ سے بد بو نہ آئے یا شراب کی قے کرے یا اس کے منہ سے بدبو آئے، مکمل اقرار اور شبہات نہ ہو یا ملزم اقرار کے بعد انکار کردے یا اقرار ہی بے ہوشی کی حالت میں ہو، ان تمام صورتوں میں حد نہیں۔ “
پھر مستی کی تعریف میں حضرت امام نے بڑی وسعت رکھی ہے، ان حالات میں نشے کے عادی حضرات کے لیے حنفی مذہب میں بڑی گنجائش ہے۔ اس قسم کے نصوص ”ہدایہ“مطبوعہ بمبئی (2/311)”طحطاوی“مطبوعہ مصر(3/1، 4)”درمختار“مطبوعہ ہند(ص:306)”شامی“طبع مصر (3/254)میں ملاحظہ ہوں، طول سے بچنے کے لیے ان کتب کی عبارات قلم انداز کی جاتی ہیں۔
ملک العلماء علامہ کاسانی(587ھ)نے بڑی صراحت سے فرمایا:
((وأما الأشربة التي نتخذ من الأطعمة كالحنطة والشعير والدخن والذرة والعسل والتين والسكر ونحوها فلا يجب الحد بشربها لأن شربها حلال عندهما وعند محمد وإن كان حولها لكن هي حرمة محل الاجتهاد فلم يكن شربها جناية محضة فلا تتعلق بها عقوبة محضة ولا بالسكر منها وهو الصحيح لأن الشرب إذا لم يكن حراما أصلا فلا عبرة بنفس السكر كشرب البفج ونحوه والله سبحانه وتعالى أعلم. اھ)) (البدئع والصنائع :7/40)