کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 253
مساعی پر وقت گزارتے تھے۔ نصوص فقہا اور بزرگوں کی آرا کا اتباع اصل ظاہر پرستی اور ظاہریت ہے۔ صحابہ اس سے پاک تھے، ان کی نظر نہایت عمیق تھی اور ظاہریت اور حشویت کا نام تک نہ تھا۔ مطلق تقلید کی بندش: مولانا نے تقلید مطلق کی بندش کو بہت سراہا ہے اور ائمہ اجتہاد کے لیے دعا فرمائی ہے کہ ان پر رحمتوں کا ہُن برسے، اس لیے کہ انھوں نے مطلق تقلید کو بند فرما دیا۔ مضمون کے اس حصے سے تعجب ہوتا ہے کہ اس پائے کے اہل علم بھی اس قدر سطحی باتیں کر جاتےہیں۔ ((ونود لو قاله غيرك)) (کاش ! آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ایسی بات کرتا) مولانا کا خیال ہے کہ تقلید مطلق کی بندش سے دنیا میں ”خواہش پرستی“کے دروازے بند ہو گئے اور تقلید مطلق کی صورت میں یہ مرض مستقبل میں یقیناً عام ہو جاتا۔ یہ ائمہ اجتہاد کی دور اندیشی تھی کہ انھوں نے اسے روک دیا۔ ملخصاً۔ لیکن مولانا کا یہ ارشاد کئی وجوہ سے غلط ہے۔ امید ہے مولانا غور فرمائیں گے: 1۔ آپ نے اس پر مشہور ائمہ اجتہاد کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ کس نے تقلید مطلق کو روکا؟ کب روکا؟آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ایک حوالہ دیا ہے، اگر آپ کے ہاں وہ ائمہ اجتہاد میں شمار ہونے لگے تو مبارک ہے، پہلے تو اکابر دیوبند اس کے قائل نہ تھے، بوقت ضرورت ان کے علوم سے استفادہ تو فرماتے رہے، مگر انھیں کبھی مجتہد نہیں سمجھا گیا۔ 2۔ جو عبارت آپ نے نقل فرمائی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں ہویٰ پرستی درست نہیں۔ انسان کو پرہیز گار اور متقی ہونا چاہیے، ہویٰ پرست نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہویٰ پرستی شخصی تقلید میں بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی حنفی مسلک کو اس لیے اختیار کرے کہ اس میں منشیات اور مسکرات کے استعمال کے متعلق خاصی نرمی ہے، مسکرات کی چارپانچ قسمیں ممنوع ہیں، جن پر اس وقت خمر بولا جاتا تھا۔ باقی کے متعلق احناف کے