کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 252
ابن قیم مسلکاً جناب سے مختلف سہی، مگر ان کی غزارت علمی اور نکتہ رسی سے امید ہے انکار نہیں ہو گا۔ فرماتے ہیں: ((فإنا نعلم بالضرورة أنه لم يكن في عصر الصحابة رجل واحد اتخذ رجلا منهم يقلده في جميع أقواله فلم يسقط منها شيئا، و اسقط أقوال غيره فلم يأخذ منها شيئا و تعلم بالضرورة ان هذا لم يكن في التابعين و لا تابعي التابعين فليكذبنا للمقلدون برجل واحد سلك سبيلهم الوخيمة في القرون الفضيلة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم و انما حدثت هذه البدعة في القرون الرابع المذموم على لسانه صلى الله عليه وسلم )) (أ علام:1/222) ”یعنی ہم قطعاً جانتے ہیں کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو کسی عالم کی تمام باتیں قبول کرے اور کسی دوسرے عالم کی کوئی بات نہ مانے، حضرات مقلدین ہمیں جھٹلانے کے لیے قرون خیر میں ایک آدمی بتلا دیں جو اس کمزور راہ پر چلا ہو، بلکہ یہ بدعت تقلید چوتھی صدی میں پیدا ہوئی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت فرمائی ہے۔ “ مولانا! آپ عالم ہیں، ایک علمی درس گاہ میں مدرس ہیں۔ آپ جو چاہیں فرمائیں، لیکن صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے ساتھ یہ مذاق نہ فرمائیں۔ آپ نے تقلید کے لیے یہی وجہ جواز بتائی ہے: ”جو شخص قرآن و سنت سے براہ راست احکام کو مستنبط کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اصل کے اعتبار سے اس کے لیے تقلید کی دونوں قسمیں جائز ہیں۔ “ (فاران، ص: 17، مئی 1965؁ء) آپ قرون خیر مشہود لہا بالخیر کی یہ خوبی بیان فرماتے ہیں کہ وہ بھی کنز و قدری کے اتباع کی طرح حشویت میں ملوث اور نظر و استنباط سے محروم تھے، محض فقہا اور اہل علم کی