کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 251
حضرت معاذرضی اللہ عنہ کے اجتہاد اور رائے کے متعلق اہل یمن کیا طریق عمل اختیار کریں؟ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حرف بھی ارشاد نہیں فرمایا۔ قضا کی صورت میں رفع نزاع کے لیے حاکم کا حکم قبول کرنا ہو گا، مگر اس کے خلاف اپیل، دوسرے علما کی طرف رجوع؟ تو اس سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اثر میں قطعاً روکا گیا۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا دوسرا اثر اسے واضح کرتا ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”فتنے ہوں گے، لوگ قرآن پڑھیں گے، لیکن اس پر عمل نہیں کریں گے۔ “
((فيتخذ مسجدا ويبتدع كلاما ليس من كتاب الله ولا من سنة رسول الله فإياكم وإياه فإنه بدعة وضلالة قاله معاذ ثلاث مرات )) [1] (أ علام، ص:1/21)
”پھر ایک مسجد بنائے گا اور اس میں نئی باتیں کرے گا، جو نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں، تم اس سے بچنا، یہ بدعت اور گمراہی ہے۔ معاذ نے یہ کلمات تین بار فرمائے۔ “
اس سے ظاہر ہے کہ معاذ قضا کے بغیر رائے کو بدعت سمجھتے ہیں۔ حکم اور قضا کی مجبوریوں کے علاوہ رائے کا استعمال حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے نزدیک بدعت ہے۔ [2]
حضرت !قرون خیر میں تقلید کا مطلب یہ ہو گاکہ اس وقت قلت علم کا مرض عام تھا۔
یہ صحابہ، تابعین اورتبع تابعین پر بہت بڑا ظلم ہے، آپ نے ان بزرگوں کی توہین فرمائی ہے، ان بزرگوں کے علم و تفقہ کو محل نظر قرار دیا۔ اگر تقلید مصطلح ان ایام میں بھی موجود ہو تو علم و اجتہاد کا مثالی دور کون سا ہو گا؟
[1] ۔ ضعيف، المستدرك(4/513)اس کی سند میں”سعید بن سیرہ“راوی ضعیف ہے۔
[2] ۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ”الراي في الشريعة تحريف و في القضاء، مكرمة (تفهيمات، 20)یعنی شریعت میں رائے کا استعمال تحریف ہے اور قضا میں رائے کا استعمال باعث عزت و توقیر ہے۔