کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 250
تصنع إن عرض لك قضاء؟ قال أقضي بما في كتاب الله قال فإن لم يكن في كتاب الله قال فبسنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال فإن لم يكن في سنة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال أجتهد برأيي ولا آلوا قال فضرب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم علىٰ صدره، قال الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله يرضى به رسول اللّه))[1] (اعلام الموقعين، ص:73 طبع ہند)
”یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے دریافت فرمایا: فرمایا تم پیش آمدہ جھگڑوں میں کیسے فیصلہ کرو گے؟ انھو ں نے اپنا طریق کار بتایا کہ میں پہلے قرآن عزیز کی طرف رجوع کروں گا، پھر سنت کی طرف، پھر اپنی رائے سے فیصلہ دوں گا۔ “
اس کا تعلق حکم اور قضاسے ہے، افتاسے نہیں۔ تقلید کا تعلق بظاہر افتا سے ہے۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((قد جوز النبي صلی اللہ علیہ وسلم للحاكم أن يجتهد برأيه وجعل له خطأه في اجتهاده أجرا)) (اعلام:ص 71)
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے۔ “
پھر آپ نے تقلید کی جو تعریف فرمائی ہے، ہر مسئلے میں اس کی رائے پر پابند ہونا مرقوم ہے، یہاں اس کا ذکر نہیں۔
[1] ۔ ضعيف سنن ابي داؤد، رقم الحديث(3592)سنن الترمذي رقم الحديث (1327)مسند احمد (5/230)اس حدیث کے ضعف کی تین وجوہ ہیں : (1)ارسال و انقطاع : یعنی یہ روایت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ بعض اصحاب معاذ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، لہٰذا یہ روایت انقطاع و ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (2)جہالت اصحاب معاذ: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ تلامذہ و اصحاب مجہول ہیں، ان کا کوئی اتاپتا نہیں۔ (3)جہالت حارث بن عمرو: اس کی سند میں ایک راوی”حارث بن عمرو“مجہول ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کا دفاع کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس کی حقیقت علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت تفصیل سے واضح فرما دی ہے۔ دیکھیں۔ السلسلة الضعيفة (881)