کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 249
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بھی، اور یہی عامی کا فرض ہے کہ وہ بلاتخصیص علماء کی طرف رجوع کرے اور علماء تعیین انھیں اَعلم او رافضل کے پاس بھیج دیں۔ پھر یہاں بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو اس لیے ترجیح دی گئی کہ انھوں نے حدیث ذکر فرمائی، رائے کا سوال ہی نہیں۔ فرمائیے!یہ تقلید کے لیے کیسے دلیل بنی؟ مولانا! آپ ایک دارالعلوم کے مدرس ہیں، آپ کو ایسی کچی باتیں نہیں کہنی چاہئیں۔ نیز اس پر بھی غور فرمائیں کہ اگرزمانۂ صحابہ میں عبداللہ بن مسعود اور زید بن ثابت جیسے ائمہ اجتہاد موجود ہیں تو پھر انھیں ان کے اس مقام سے کس نے معزول کیا اور ان کی جگہ ائمہ اربعہ کو کس پیغمبر نے دی؟صحابہ کا مقام تو ہرلحاظ سے اونچا سمجھنا چاہیے۔ کیا مجتہدین صحابہ کا مقام ائمہ اربعہ سے کم ہے؟ تیسری دلیل حضرت مولانا نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو سے استدلال فرمایا، جو انھوں نے یمن جاتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائی۔ یقیناً اس میں قاضی کے لیے بہترین راہنمائی ہے۔ حکام اور قضاۃ کے لیے یہ عظیم الشان اساس ہے، لیکن تقلید کے لیے اس میں کوئی مقام نہیں۔ آپ غور فرمائیں اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس لیے یمن بھیجتے کہ اہل یمن انھیں مجتہد سمجھ کر ان کی تقلید کریں تو ان سے اس دریافت کی ضرورت نہ تھی کہ آپ فیصلہ کیسے کریں گے؟ بلکہ حضرت معاذ کو ایک سرکاری دستاویز عنایت فرماتے کہ مجتہد صاحب تمہارے پاس تشریف لارہے ہیں، تم سب ان کی تقلید کرنا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس سے بالکل مختلف ہے۔ حضرت فرماتے ہیں: ((عن معاذ أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثه إلى اليمن قال: كيف